آروشی قتل کیس میں ماں باپ مجرم قرار

غازی آباد: ہندوستانی عدالت نے گلا کاٹ کر اپنی بیٹی اور نوکر کا قتل کرنے والے ڈاکٹر جوڑے کو مجرم قرار دے دیا ہے۔
راجیش اور نوپور تلوار نامی دانتوں کے علاج کرنے والے جوڑے نے پانچ سال قبل 2008 نئی دہلی میں واقع اپنے گھر پر 14 سالہ بیٹی آروشی اور نیپالی نوکر کو سرجری کے لیے استعمال کیے جانے والے نوک دار آلے کی مدد سے گلا کاٹ کر قتل کر دیا تھا۔
تفتیش کاروں نے الزام عائد کیا کہ آرشی کے والدین نے اسے 45 سالہ نوکر کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھا تھا اور اسی لیے انتقاماً دونوں کو قتل کر دیا۔
دوسری جانب ڈاکٹر جوڑے کا اصرار ہے کہ وہ سالوں سے پولیس کی نا اہلی اور میڈیا ٹرائل کا شکار ہیں۔
پراسیکیوٹر آر کے سینی نے غازی آباد کی مقامی عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں قتل کا مرتکب قرار دینے کے ساتھ ساتھ ثبوت چھپانے کا بھی الزام ہے۔
جج کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد ان دونوں کے آنسو نکل پڑے تاہم انہوں نے انصاف کے حصول کے لیے لڑنے کے عزم کا اظہار کیا۔
جوڑے نے صحافیوں کو اپنے تحریری بیان میں کہا کہ ہم ایک ناکردہ جرم میں مجرم قرار دیے جانے پر انتہائی مایوس اور دکھی ہیں۔
مذکورہ جوڑے کو منگل کو متوقع طور پر عمر قید اور سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔
اس مقدمے کو ہندوستان بھر میں بھرپور توجہ ملی جہاں کیس کے ہر موڑ پر بحث مباحثہ جاری رہا اور اس حوالے سے وقتاً فوقتاً عوامی رائے بھی لی جاتی رہی۔
اس مقدمے کے سامنے آنے سے ہندوستان میں خواتین پر مظالم خصوصاً غیرت کے نام ہر قتل اور جنسی زیادتی کے کیس بڑی تعداد میں منظر عام پر آئے جس میں بڑا واقعہ گزشتہ سال دہلی میں ایک طالبہ کی بدترین گینگ ریپ تھا۔
فیصلے کے بعد ڈاکٹر جوڑے کے اہل خانہ اور دوستوں نے پولیس، قانونی نظام اور میڈیا پر جذباتی حملے کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ پہلے دن سے ہی ہمارے خلاف تھے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں مجرموں کے خلاف کسی بھی قسم کے ٹھوس شواہد نہیں ملے اور ان دونوں کے خلاف یہ مقدمہ محض اس ثبوت یا بات پر قائم ہے کہ مقتولین کو آخری بار ان دونوں کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔
آروشی مئی 2008 کی ایک صبح اپنے کمرے میں بستر پر مردہ پائی گئی تھی جہاں اس کا گلا کاٹ کر قتل کیا گیا تھا۔
پولیس نے ابتدائی طور پر گھر کے ملازم کو قتل کا ذمے دار ٹھہرایا تھا جو اس وقت موجود نہیں تھا لیکن ایک دن بعد ہی چھت سے اس کی سڑی ہوئی لاش ملی تھی۔
رپورٹس کے مطابق نوکر کا بھی گلا کٹا ہوا تھا اور اس کے سر پر بھی ایک زخم تھا۔
اس کے بعد حکام نے راجیش تلوار کے نیپالی ڈینٹل اسسٹنٹ کو دو مقامی نوکروں ے ساتھ گرفتار کر لیا تھا تاہم ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بنا پر ان سب کو رہا کردیا گیا تھا۔
تاہم 2010 میں پولیس نے ٹھوس شواہد نہ ملنے پر مقدمے کو بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا جہاں وہ جائے وقوعہ کو سیل نہ کرنے، پڑوسیوں اور رشتے داروں کی موقع پر آمد اور ایک دن کے بھی بعد دوسری لاش ملنے کے باعث تحقیقات میں ناکام رہی تھی۔ اس دوران پہلے دن سے ہی میڈیا آروشی کے ماں باپ پر شبہ ظاہر کر رہا تھا ۔
مقدمے میں اہم موڑ اس وقت آیا جب ماں باپ نے قاتلوں کی گرفتاری پر زور دیتے ہوئے مقدمہ دوبارہ کھولنے کی درخواست دائر کی لیکن الٹا ان پر ہی قتل کا الزام لگا دیا گیا تھا۔
تلوار کا مقدمہ لڑنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے اور یہ فیصلہ ہم سب کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم الہ آباد ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرتے ہوئے اپنے بے گناہ موکلین کو انصاف دلائیں گے۔