ایک غیرسرکاری تنظیم نے پاکستانی بچوں کی صحت، تعلیم اور فلاح کے حوالے سے فکر انگیز انکشافات کئے ہیں۔ اے پی تصویر

کراچی: پاکستان وہ دوسرا ملک ہے جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح،  دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ سندھ ملک کا وہ صوبہ ہے جہاں سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی صورتِ حال ابتر ہے۔

 یہ بات جمعہ کو غیر سرکاری تنظیم اسپارک کی جاری کی گئی سالانہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ ہے جو اسکول نہیں جاتے جب کہ ان میں ستّر لاکھ بچے ایسے ہیں جو پرائمری اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کی عمر کو پہنچ چکے۔

یہ اعداد و شماربچوں کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف چلڈرن' یا 'اسپارک' نے اپنی رپورٹ سالانہ رپورٹ 'دی اسٹیٹ آف پاکستان چلڈرن ۔ رپورٹ ۲۰۱۱' میں بیان کیے ہیں۔

رپورٹ میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے جن موضوعات پر صورتِ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں تعلیم، تشدد، چائلڈ لیبر، صحت، اقلیتیں، سیلاب اور بچوں کے لیے انصاف کا نظام شامل ہیں۔

سن دو ہزار چھ میں نیشنل ایجوکیشن سروے کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے ملک بھر میں  قبل از پرائمری تعلیم کے لیے داخلوں کا تناسب لڑکوں میں تینتالیس سے پینتالیس فیصد جب کہ لڑکیوں میں چالیس فیصد ہے۔

اس حوالے سے رپورٹ میں صوبہ وار اعداد و شمار بھی بیان کیے گئے ہیں۔ جن کے مطابق پنجاب میں قبل از پرائمری تعلیم کے لیے داخلوں کی شرح اکسٹھ فیصد ہے۔ یہ ملک بھر میں سب سے زیادہ شرح ہے۔

سندھ میں یہ شرح تریپن فیصد، خیبر پخوتنخواہ میں اکیاون اور بلوچستان میں سینتالیس فیصد ہے۔

اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے رپورٹ کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں پینسٹھ فیصد اسکولوں میں  پینے کے پانی کی سہولت دستیاب ہے۔ باسٹھ فیصد میں واش روم ہیں۔ اکسٹھ فیصد اسکولوں کی چار دیواری موجود ہے اور اُنتالیس فیصد میں بجلی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی سہولتوں یعنی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے ملک بھر میں سب سے خراب صورتِ حال سندھ میں دیکھی گئی، جہاں پینتیس فیصد سرکاری اسکولوں کی عمارتیں موجود  نہیں اور اسکول ہیں تو زیادہ تر کی چار دیواری نہیں ہے۔

سہولتوں کی عدم فراہمی کی یہ شرح خیبر پختونخواہ میں تئیس، بلوچستان میں اٹھارہ اور پنجاب میں دس فیصد ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 'پورے پاکستان میں تیس ہزار سرکاری اسکول ایسے ہیں، جن کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں مگر انہیں حکومت کی طرف سے بدستور فنڈز مل رہے ہیں۔'

سیلاب

اسپارک کی رپورٹ میں سیلاب کی صورتِ حال کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال آنے والے بدترین سیلاب کے باعث سندھ اور بلوچستان کے نو ہزار، آٹھ سو اسکولوں کی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔

سیلاب سے تباہ حال مخدوش اسکول عمارتیں، اساتذہ کی عدم موجودگی یا سیلاب زدگان کے زیرِ استعمال اسکول عمارتوں کی وجہ سے چار لاکھ، دس ہزار بچے تعلیم سے محروم ہوئے۔

اسکول عمارتیں تباہ ہونے کے باعث چالیس ہزار سے زائد طلبا ایسے عارضی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، جہاں کسی قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں۔

ساتھ لاکھ، اُنتیس ہزار، چھ سو بچے ایسے ہیں جن کے پاس کتابیں نہیں ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں مجموعی طور پر لگ بھگ ایک ہزار، دو سو چوالیس ایسے اسکول ہیں جن کی عمارتیں میں سیلاب زدگان کے لیے بطور پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔

دہشت گردی

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی  کے باعث کے باعث چھ لاکھ ایسے بچے ہیں جن کے ایک یا دو تعلیمی سال ضائع ہوئے۔ دہشت گردوں نے سات سو دس اسکول تباہ کیے۔

 رپورٹ کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں کے دوران دہشت گردوں کے ہاتھوں صرف مالاکنڈ میں چھ سو چالیس اسکولوں کو تباہ کیا گیا۔

صوبہ کے مختلف اضلاع میں ستّرتعلیمی ادارے تباہ کیے گئے۔ سوات میں دہشت گردوں کے حملوں میں ایک سو، اکیس اسکول مکمل طور پر تباہ اور دو سو اسّی کو جزوی نقصان پہنچا۔

صحت

رپورٹ کے مطابق بچوں کی صحت کے حوالے سے پاکستان دنیا کے سرِ فہرست اُن پانچ ملکوں میں شامل ہے، جہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اکثریت خطرناک حد تک  کم وزن کی حامل ہے۔  پاکستان میں پیدا ہونے والے تینتالیس فیصد بچے عمر کے مقابلے میں کم وزن اور چھوٹے قد کا شکار ہیں۔

'اگرچہ سن دو ہزار آٹھ ۔ نو کے مقابلے میں صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔

بارہ سے تئیس ماہ کے بچوں میں وبائی اور دیگر مہلک امراض سے بچاؤ کی ادویات کی فراہمی کا دائرہ جو اوپر بیان کردہ مدت میں اٹھہتر فیصد تھا، سن دو ہزار دس۔ گیارہ میں بڑھ کر اکیاسی فیصد ہوگیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس حوصلہ افزا نتائج کے باوجود یہ شرح اقوامِ متحدہ کے میلینئم ڈویلپمنٹ گولز سے کم ہے۔ اقوامِ متحدہ کے اہداف کے مطابق سن دو ہزار دس ۔ گیارہ میں نوّے فیصد بچوں کو وبائی اور دیگر مہلک امراض سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگائے جانے تھے۔

سن دو ہزار گیارہ میں، دنیا بھر میں پولیو کے سامنے آنے والے کیسز کا کُل تیس فیصد یعنی ایک سو ستانوے پاکستان میں سامنے آئے۔

 ملک کے ایک سو باون میں سے گیارہ اضلاع ایسے ہیں جہاں پولیو سے متاثرہ کیسز سامنے آئے۔ ان میں کراچی، پشاور کوئٹہ اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے کی تین ایجنسیز بھی شامل ہیں۔

جرائم

رپورٹ کے مطابق بچوں سے سرزد جرائم کے حوالے سے ملک بھر میں صوبہ پنجاب سرِ فہرست ہے۔

سن دو ہزار دس میں، یہاں قیدی بچوں کی تعداد ایک ہزار، دو سو، پچیس تھی، جو دو ہزار گیارہ میں بڑھ کر ایک ہزار، چار سو، اکیس ہوگئی۔ ان میں سے ایک سو، چھپن مقدمات میں قید  بچوں کو سزائیں ہوچکی ہیں۔

سن دو ہزار گیارہ میں، پنجاب میں آٹھ سو تراسی ملزم بچے گرفتار ہوئے۔ اس کے بعد سندھ آتا ہے جہاں تین سو، اکیاسی اور بلوچستان میں چالیس ملزم بچے گرفتار کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران دو ہزار، تین سو تین بچوں کو جنسی ہراساں کرنے یا زیادتی کا شکار بنانے کے مقدمات درج ہوئے۔

بچوں پر تیزاب پھیکنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سن دو ہزار دس میں پینسٹھ بچوں کو تیزاب سے جھلسایا گیا۔ سن دو ہزار گیارہ میں یہ تعداد بڑھ کرایک سو، پچاس ہوگئی تھی۔

سن دو ہزار گیارہ میں مجموعی طور پر سات ہزار بچے ملک کے مختلف حصوں سے اغوا ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ، بلوچستان میں سیلاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں امن و امان کی خراب صورتِ حال کے باعث بچوں اور خواتین کے اغوا میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف کراچی میں ایک سال کے دوران تین ہزار، نوّے بچے اغوا ہوئے۔

سن دو ہزار گیارہ میں، ملک کے مختلف حصوں میں  ڈھائی سو بچے مسلح تصادم میں گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان بچوں کی اکثریت فاٹا اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتی تھی۔

اقلیتیں

رپورٹ میں پاکستانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے حوالے سے بیان کردہ صورتِ حال افسوسناک ہے۔

 رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال سندھ کے مختلف علاقوں سے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے ستائیس بچوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا۔

اسی طرح بلوچستان سے پانچ سو ہندو خاندانوں نے پیش بندی کے طور پر ہندوستان نقل مکانی کی تاکہ زیادتیوں سے بچ سکیں۔

پرائمری اسکولوں میں ہندو بچیوں کے داخلے کی شرح مجموعی طور پر دس اعشاریہ صفر دو فیصد رہی۔

پنجاب کے شہر حافظ آباد کے ایک اسکول سے مذہبی امتیاز کی بنا پر سات طالبات اور ایک ٹیچر کو نکال دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار گیارہ میں پاکستان کی مختلف اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی دو ہزار لڑکیوں کو جبری اسلام قبول کرایا گیا۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ اوسطاً ہر سال تقریباً تین سو ہندو لڑکیوں کو تبدیلی مذہب پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اسپارک کی رپورٹ سن دو ہزار گیارہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی نوجوان نسل میں شرح خواندگی کا تناسب بہت کم ہے۔ صرف اُنہتّر فیصد نوجوان بچے بچیاں اسکول جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ملک کے گیارہ اعشاریہ چھ ملین نوجوان لڑکے لڑکیاں ناخواندہ ہیں۔

رپورٹ کا کہنا ہے پندرہ سے چوبیس برس کے لڑکے لڑکیوں میں،  اُناسی فیصد لڑکوں کے مقابلے میں صرف اُنسٹھ فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

رپورٹ کے آخر میں تنظیم نے اپنے تجزیہ میں کہا ہے کہ ملک کے نوجوانوں میں ناخواندگی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کے تدارک کے لیے انتظامات ناکافی ہیں۔۔

تبصرے (1) بند ہیں

innohunter Sep 10, 2012 12:13am
یہ خبر کتنی خوشی ہے