تصویر بشکریہ وائٹ اسٹار

انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ ملک میں پہلے سے موجود کم تعداد میں سینما گھرلاپرواہی اور لوٹ مار کا شکار بن چکے ہیں۔

 حال ہی میں کراچی میں پر تشدد احتجاج کے دوران چھ سینماؤں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ وہ سینما گھرجن سے ہم سب کی خوشگوار یادیں جڑی تھیں۔

 ایک طرف جہاں ملک کے بڑے شہروں میں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ملٹی پلیکس سینما کھل رہے ہیں تو وہیں دوسری جانب حکومت کی جانب سے پرانے سینما گھر، جنہوں نے ماضی میں شاندار دن بھی دیکھےتھے، کی حفاظت اور تزئین و آرائش نہ کرنا تشویش ناک ہے۔

 یہ پرانے سینما گھر اب بھی عام آدمی کی پہنچ میں ہیں کیونکہ نئے ملٹی پلیکس سینماؤں کی ٹکٹیں کافی مہنگی ہیں۔

 تو ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟

 آپ کے خیال میں کیا ہمیں پرانے جلائے گئے سینماؤں کو بھول جانا چاہئیے یا پھر ان کو بحال کرنا چاہیئے؟

 یا پھر مزید نئے ملٹی پلیکسز کھولنے چاہیئیں؟

 کیا آپ کو پاکستان کے پرانے سینما گھروں میں سے جڑا کوئی واقعہ یاد ہے؟

 فوزیہ ناصر احمد ڈان میگزین کے ایک فیچر میں لکھتی ہیں کہ 'نیو یارک'، 'کمینے' اور 'مائی نیم از خان' جیسی فلمیں دیکھنے کا مزا نشاط کی بڑی بڑی گیلریوں، دوستوں اور بوہری بازار کے سموسوں اور پکوڑوں کے بغیر ادھورا ہے۔

 کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ نئے عالیشان سینما گھروں کی سیٹوں اور ذائقہ دار پاپ کارن کی آمد کے بعد کیا ہمیں پرانے دھول بھرے سینماؤں کو بھول کر آگے کی طرف دیکھنا چاہیئے؟

 حکومت نئے سرمایہ کاروں کو اس جانب کیسے متوجہ کرسکتی ہے؟

 کیا سیکورٹی سینماؤں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے یا اس کی تنزلی کی اور بھی وجوہات ہیں؟

 اور سب سے بڑھ کر، کیا آپ ذاتی طور پر سینما گھروں کو پاکستان کا ورثہ سمجھتے ہیں؟

 ڈان اردو آپ کی قیتمی رائے کا منتظر رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں