پاکستان کے سابق سفیر کی اہلیہ اور پاکستان کی سابق رکنِ پارلیمان، فرح ناز اصفہانی۔ اے پی فوٹو

اس ماہ پچیس مئی کو پاکستان کی عدالت  عظمٰی نے پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کی اہلیہ  فرح نازاصفہانی کی پارلیمان کی رکنیت کو منسوخ کر دیا۔

تاہم اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ عدالت عظمیٰ کے مطابق فرح ناز اب پاکستانی شہری بھی نہیں رہیں۔ عدالت نی یہ حکم دوہری شہریت پر چلنے والے ایک مقدمے میں عبوری فیصلے کے تحت جاری کیا۔ فرح ناز اصفہانی کی عارضی طور پر پارلیمان کی رکنیت ختم کرنا ایک بات ہے اور انہیں غیر پاکستانی قرار دینا بالکل دوسری۔

محترمہ اصفہانی نے عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ وہ پیدائشی طور پر پاکستانی شہریت کی حامل ہیں اور بعد ازاں قانونی اعتبار سے امریکی شہریت اختیار کر چکی ہیں۔ امریکی شہری بننے والے ہر فرد کو حلفِ وفاداری کے دوران ان الفاظ کا اعادہ کرنا پڑتا ہے،

'میں حلف لیتا/ لیتی ہوں کہ میں مکمل طور پر کسی بھی دوسری اور بیرونی ریاست کی وفاداری یا کسی بھی حکومت جس کا/کی میں شہری رہ چکا/چکی ہوں،  سے دستبرداری کا اعلان کرتا/ کرتی ہوں۔'

عدالت کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر محترمہ اصفہانی امریکی شہری بننے کے نتیجے میں اپنی پاکستانی شہریت سے محروم ہوچکیں۔اس لئے ان پر پاکستانی آئین کی شق تریسٹھ (ایک)(سی)کا اطلاق ہوتا ہے جس کے تحت کوئی بھی شخص پارلیمان کا رکن نہیں ہوسکتا، اگر وہ پاکستانی شہری نہ ہو یا کسی بیرونی ریاست کی شہریت حاصل کرچکا ہو۔

پاکسانی آئین کی مذکورہ شق واضح ہے، لیکن عدالتَ عظمٰی کے فیصلے میں پیچیدگیاں ہیں ۔

اول، دلچسپ بات یہ ہے کہ کورٹ نے وزیرِاعظم کے توہینِ عدالت کے مقدمے میں دئیے جانے والے اس سات رکنی بنچ کے فیصلے سے بالکل مختلف راستہ اختیار کیا جس کے مطابق بنچ نے وزیرِ اعظم کی رکن پارلیمان کی حیثیت کا فیصلہ اسپیکر پر چھوڑدیا تھا۔

اگر اس مقدمے میں اسی دلیل پر انحصار کیا جائے تویہ اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ طے کرے کہ آیا محترمہ اصفہانی پاکستانی آئین کی شق تریسٹھ (ایک)(سی) کے تحت اپنی پاکستانی شہریت سے محروم ہوچکی ہیں یا بیرونی شہریت حاصل کرچکی ہیں۔

پھر عدالت نے محض یہ قانونی حیثیت نہیں اختیار کی کہ محترمہ اصفہانی نے بیرونی شہریت اختیار کی ہے اور جس پر پاکستانی آئین کی شق تریسٹھ (ایک)(سی) کا اطلاق ہوتا ہے بلکہ عدالت نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا امریکی شہریت حاصل کرنا فرح ناز کو ازخود پاکستانی شہریت سے محروم کردیتا ہے۔

عدالت بظاہر یہ تجویز کرتی نظر آتی ہے کہ امریکہ کو مطلوب حلفِ وفاداری کے باعث ہر وہ فرد جو امریکی شہریت حاصل کرتا ہے ازخود  اس سے قبل کی  شہریت سے محروم ہوجاتا ہے ۔ تاہم، عدالت کا اس نتیجے پر پہنچنا، خواہ یہ ابتدائی ردِعمل ہی کیوں نہ ہو، حقائق کی درست عکاسی نہیں کرتا۔

یہ اک مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ دوہری شہریت کی اجازت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کیلیفورنیا کے گورنر آرنلڈ شوارزنیگر، ایک مشہور دوہری شہریت رکھنے والے شخص ہیں، جو بہ یک وقت امریکہ اور آسٹریا کے شہری ہیں۔ اگر امریکہ درحقیقت دوہری شہریت کی ممانعت کرتا ہے تو کیا یہ ان کے انتخابات کے دوران ایک مسئلہ نہ بن جاتا؟

اس کی سادہ سی وجہ ہے۔اس سے قطع نظر کہ ایک ملک کسی بھی شخص سے حلف لیتے ہوئے کیا کہلواتا ہے ، یہ فیصلہ کہ آیا ایک شہری اپنی پچھلی شہریت سے دستبردار ہوتا ہے یا نہیں ، صرف وہی ملک کرسکتا ہے ۔

کسی بھی شہری کا اپنی شہریت سے دستبردار ہونا اس کا حق نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دوسری ریاست طے کرسکتی ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والا کوئی فرد پاکستانی شہری ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ یہ تجویز کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کوئی فرد صرف ایک حلف لینے سے اپنی شہریت سے دستبردار ہوسکتا ہے ۔ اگر یہ درست ہوتا تو کوئی بھی شخص شہریت سے دستبردار ہوکر بے ریاست ہوجاتا۔

پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ انیس سو اکیاون کے سیکشن چودہ کے تحت ہی پاکستان میں کسی شہری کو اس کی شہریت سے محروم کی جاسکتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ نے محترمہ فرح ناز اصفہانی کا فیصلہ سناتے ہوئے شہریت سے دستبرداری کے اس قانون کا تذکرہ ہی نہیں کیا۔ سیکشن چودہ کے مطابق عام قانون کے تحت کسی پاکستانی کو دوہری شہریت رکھنے کے اجازت نہیں اور جو شخص کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے وہ پاکستانی شہری نہیں رہتا۔

تاہم اس عمومی قانون میں ترمیم کرکے سیکشن چودہ(تین) میں ایک گنجائش نکالی گئی ہے کہ  کسی بھی پاکستانی کے دوہری شہریت حاصل کرنے پروفاقی حکومت ان ممالک کو آگاہ کرسکتی ہے جہاں یہ شہریت برقراررکھی گئی ہو۔

امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر ایک نظر ڈالتے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایس آر او پانچ سو اکیاسی(ایک) دوہزار دو کے تحت پاکستانی وفاقی حکومت اس کی اجازت دیتی ہے کہ کوئی بھی پاکستانی شہری امریکہ کے ساتھ اپنی دوہری شہریت برقرار رکھ سکتا ہے۔

اس نوٹیفکیشن سے پہلے یہ بھی واضح طور پرکہا جاچکا ہے کہ یہ فیصلہ 'دونوں حکومتوں کے درمیان مکمل مشاورت اوربات چیت کے بعد کیا گیا ہے اور اسے دونوں ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے۔' یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ اپنی شہریت حاصل کرنے والے کسی مرد یا عورت کو نہ صرف اپنی پہلی شہریت برقرار رکھنے کا اختیار دیتا ہے بلکہ پاکستانیوں کو اس کی خصوصی اجازت ہے۔

اس کے باوجود بھی عدالتِ عظمٰی اس پر اصرار کرتی ہے کہ امریکہ سے حلفِ وفاداری کے الفاظ ادا کرنے سے امریکی شہری بننے والا کوئی پاکستانی، پاکستان کا شہری نہیں رہتا ۔ اگرسپریم کورٹ اسے بعد میں اپنے حتمی فیصلے میں بھی برقرار رکھتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہوگا کہ کوئی بھی پاکستانی امریکی شہریت اختیار کرنے کے بعد کبھی بھی دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا کیونکہ امریکہ سے حلفِ وفاداری کےاداکردہ الفاظ اس کی پاکستانی شہریت سے ازخود دستبردار کرنے کے لئے کافی ہیں۔

اس تمام معاملے میں بنیادی غلط فہمی یہ ہے کہ امریکہ میں لیا جانے والا وفاداری کا حلف پاکستانی قانون کی ضروریات کے لئے بھی موثر ہے۔ خواہ امریکہ میں کوئی شخص کچھ بھی کہے یہ صرف اسی صورت میں قابل عمل ہوگا جب پاکستانی قانون اسے تسلیم کرے۔ یہ پاکستانی قانون بتاتا ہے کہ کوئی شخص کیسے شہریت سے محروم ہوتا ہے ناکہ امریکی قانون۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ پاکستانی قانون امریکی حلفِ وفاداری کے الفاظ کو شہریت کے خاتمے کے کیلئے کافی نہیں سمجھتا۔

ان حقائق کی روشنی میں عدالت کو محترمہ اصفہانی کی وفاداری پر کھلے عام ایسے بنیادی سوالات نہیں اُٹھانے چاہئیں تھے۔  وہ امریکی شہریت حاصل کرنے کے کیلئے ان الفاظ کا مفہوم جانتی ہوں گی لیکن وہ ساتھ ہی اس پر بھی یقین رکھتی ہوں گی کہ یہ الفاظ ان کی پاکستان سے وفاداری کو ختم نہیں کردیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں