• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

پاکستان ایک تجربہ گاہ

شائع December 18, 2012

فائل فوٹو --.

وطنِ عزیزمیں جس طرح ہر موسم کے پھل اور سبزیاں وافر مقدار میں موجود ہیں بالکل اسی طرح ”اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے“ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ ہر کسی کی نظریں حکومت کے حصول پر جمی ہوئی ہیں۔ کچھ تو کسی نہ کسی شکل میں حکمرانی کا تجربہ کرکے اس کے مزے لوٹ بھی چکے ہیں جب کہ کچھ آنے والے دنوں پر اپنی نظریں جمائے بیٹھے ہیں تاکہ وہ بھی کوئی نیا تجربہ کر سکیں۔

یہاں کسی جاگیردار کی لاٹری نکل آئے اور اسے ملک پر حکمرانی کا موقع ملے تو پورے ملک کو اپنی جاگیر سمجھ بیٹھتا ہے۔ اُسے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ان کے مزارعے کس حال میں جی رہے ہیں  اگر پرواہ ہوتی ہے تو فقط اس بات کی کہ بس فصل اچھی ہو  تاکہ منافع زیادہ ملے۔ اور ویسے بھی مزارعے ہوتے ہی اسی لئے ہیں کہ ان کا خون پسینہ بہتا رہے تاکہ مالک کی تجوریاں بھرتی رہیں۔

اب اس بات سے کون اختلاف کرے گا کہ جاگیر جتنی بڑی ہوگی اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حجم بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا اور طاقت کا اظہار بھی، اسی لئے نعرۂ مستانہ لگایا جاتا ہے”کھپے، کھپے“! ۔

اب یہی حکومت اگر کسی سرمایہ دار کے ہاتھ آجائے تو  ایسے میں ملک اور عوام کی جو درگت بنتی ہے اس کا مظاہرہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ اب انہیں کون یہ بات سمجھائے کہ کسی کارخانے اور ملک کو چلانے میں زمیں و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

کارخانے میں کسی نئی مشین یا چند کمپیوٹرز کا اضافہ کرکے اور بدلے میں درجنوں بلکہ سینکڑوں ملازمین کو نوکریوں سے نکال کر اپنے کارخانے بلکہ یوں کہئے کہ خود اپنے اخراجات میں کمی لاکر آمدن میں اضافہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اگر یہی فارمولا کبھی ڈاون سائیزنگ تو کبھی رائٹ سائیزنگ جیسے پیچیدہ ناموں سے ملکی عوام پر مسلط کیا جائے گا تو ظاہر ہے اس سے ملک میں نہ صرف بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ عوام میں بے چینی اور مایوسی بھی بڑھے گی۔

حالانکہ حکمرانوں کی تو یہ ذمّہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کے لئے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کریں تاکہ ان کا معیارِ زندگی بہتر سے بہتر ہو، لیکن پہلے ہم اس ملک کو کارخانے کے بجائے ملک تو سمجھیں۔

اب زرا آپ اس بات کا تصور کریں کہ ملک پر کسی مولوی کی حکومت قائم ہو جاتی ہے (حالانکہ محض یہ تصور ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہے) جن کی پوری زندگی ڈنڈے کے زور پر سبق یاد کرتے اور کراتے گزری ہو، جو اپنے مسلک اور اپنی پارٹی کے علاوہ ہردوسرے مسلک اور پارٹی کو گناہ گار اور خطا کار تصور کرتے ہوں،جو اسلام اور شریعت کی اپنی ہی تشریح کرتے ہوں اور اس تشریح سے اختلاف کرنے والوں کو کافر اور قابلِ گردن زنی قرار دیتے ہوں، ایک دوسرے کی امامت میں نماز پڑھنا تو درکنار، مسجد کے دروازے پرتختی آویزاں کرتے ہوں جس پر واضح لکھا  ہوتا ہو کہ”دیگر مسالک کے لوگوں کا مسجد کے اندر قدم رکھنا سخت منع ہے“ تو اندازہ کریں کہ ایسے میں ملک میں کیسا ”روح پرور ماحول“ ہوگا، لوگ کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ ”شیرو شکر“ ہوں گے اور نتیجے میں کیسا ”مثالی معاشرہ“ وجود میں آئے گا؟ لیکن پہلے ہمارے مولوی اسلام، شریعت اورمساوات کی واحد تشریح پرتو متفق ہوں۔

ڈنڈے کے زور پر معاملات حل کرنے اور حکومت کرنے کا تجربہ یوں تو ہمارا مارشل طبقہ بھی پہلے کئی بار بلکہ بار بار دہرا چکا ہے، لیکن کیا اس سے ملکی معاملات درست کرنے میں کوئی مدد ملی ہے؟ مگر وہ جو کہتے ہے ناں کہ”جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا۔ لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا“ بہ الفاظِ دیگر ”گڑھا کھودو اور اسکی مٹی دفنانے کے لئے ایک اورگڑھا کھودو“ یعنی کچھ نہ کچھ کرتے رہو، بے کار ہرگز نہ بیٹھو ورنہ پھر اس  ”ہونے“ کا کیا فائدہ؟

سرحدوں پہ کچھ کام نہیں تو نہ سہی سرحدوں کے اندر بھی توبہت سارے کام پڑے ہیں۔ وقتاَ فوقتاَ حکومت پہ قبضہ کرنا بھی انہی کاموں میں سے ایک ہے۔ اور پھر بے وقوف سویلین کی زبان بندی بھی تو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہی ہے۔ یہ کام اگر براہِ راست نہیں کرسکتے تو کیا؟ اس کام کو انجام دینے کے اور بھی تو کئی طریقے ہیں۔ بس فقط اپنے سٹریٹجک اثاثوں کو سنبھال کے رکھنا اور اُنہیں ہر وقت مصروف رکھنا ہی نہایت ضروری ہے تاکہ ان کی صلاحیتوں کو زنگ نہ لگے اور ”بوقت ضرورت کام آئے“ (داشتہ بہ کار آید) اگر اس نیک مقصد کے حصول میں کچھ ”بے زبانوں“ کی جانیں چلی بھی جائیں تو کیا؟ ویسے کسی بڑے ہدف کو پانے کی خاطر کچھ ”چھوٹی موٹی“ قربانیاں تو دینی ہی پڑتی ہیں لیکن کیا ہم نہیں جانتے کہ انہی تجربوں نے تو ملک کا خانہ خراب کر رکھا ہے؟

ہمارے ارد گرد ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں جنہوں نے انڈر ورلڈ مافیا کی طرح ملک کو اپنے اپنے علاقوں میں تقسیم کر رکھا ہے اگر کوئی غلطی سے بھی اپنی حدود پار کرکے ان کے علاقے میں چلا جائے تو اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ بھی ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں۔ بوری بند یا مسخ شدہ لاشیں اورٹارگٹ کلنگ۔ کیا ہم ایسی خبریں روز نہیں سنتے؟ اب اگر ایسے میں کوئی انڈر ورلڈ ڈان ملک کی عنان سنبھالے تو ذرا تصور کریں کہ کیا ہوگا؟ ٹیکس کے بجائے”بھتہ“ اکٹھا کیا جائے گا، جاسوسی کے  بجائے ”فیلڈنگ“ کی جائے گی، عدالتوں کا کام بھائی لوگ سنبھال لیں گے، ”پرچی“ کے زریعے احکامات جاری ہونگے اور”ُسُپاری“ کے زریعے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ یعنی نہ تو عوام کو انصاف کے لئے در بہ در بھٹکنا پڑے گا اور نہ ہی مقدمات کے فیصلے کے لئے طویل انتظار کرنا ہوگا۔ پھر تو باقی عوام کی طرح ”اپن“ بھی مطمئن زندگی گزارے گا۔

ان ٹینشن والی باتوں کے بعد کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ کچھ ہلکی پھلکی بات ہوجائے؟ آپ کو اپنے سکول کے زمانے کی کچھ باتیں بتاؤں۔ جب ہم سکول میں تھے تو ہفتے میں ایک یا دو دن ایسے بھی آتے جب  بور مضامین پڑھ پڑھ کے دماغ خراب ہو جاتا تو ایسے میں ایک پیریڈ کا ہمیں شدّت سے انتظار رہتا جسے ہم پی ٹی یعنی فزیکل ٹریننگ کے نام سے یاد کرتے تھے۔

ایک  ریٹائرڈ صوبیدار جس کے گلے میں ڈور کے ساتھ ایک سیٹی (جسے ہم اشپلق کے نام سے یاد کرتے تھے) لٹکی رہتی تھی ہمیں پی ٹی کرانے سکول کے گراؤنڈ میں لے جایا کرتا تھا۔ وہاں ہم ہاتھ پیر ہلا کے اور بھاگ دوڈ کرکے خوب ہلّا گلّا کیا کرتے تھے۔ اتفاق سے ہمارے پی ٹی آئی یعنی فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر بھی ذرا ”فوجی“ قسم کے آدمی تھے، ڈسپلن پہ بہت زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ ہمیشہ ماضی میں گم رہتے اور فوج میں بِتائے دنوں کو یاد کرتے رہتے تھے۔

اُن دنوں کی یاد کرتے کرتے میرے ذہن میں یہ سوال اُٹھنے لگا ہے کہ اگرکبھی کسی کھلاڑی یا فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر کو حکومت کرنے کا موقع ملے تو کیا ہوگا؟ ہر طرف وہی ہلا گلا، بھاگم بھاگ اور کھیل کود۔ اس کا اندازہ ہم ان بیانات سے ہی کر سکتے ہیں”میں ایک ہی گیند میں تین تین وکٹیں گرا دونگا، سب کی وکٹیں اُڑا دونگا، مجھے ایک اچھی ٹیم کی ضرورت ہے، میری باولنگ کے سامنے کوئی نہیں ٹہر سکے گا اور ہم اگلے الیکشن میں کلین سویپ کریں گے (ہاؤ زاٹ)! رہی عوام کی بات، تو وہ ہے ہی اسی لئے بس کہ میچ دیکھتی جائے اور تالیاں بجاتی جائے۔ اب کوئی ہو جو ان کھلاڑیوں کو یہ  سمجھائے کہ سیاست کوئی کھیل اور ملک کھیل کا میدان ہرگز نہیں۔

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہمارے سیاستدان ملک کو ملک ہی سمجھیں۔ اسے اپنی جاگیر، اپنا کارخانہ، اپنا مدرسہ، اپن کا علاقہ اور اپنا ڈریسنگ روم نہ سمجھیں، اور اس پر مزید تجربہ کرنے سے باز رہیں؟ کیا عوام اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ ملک پر کبھی کسی حقیقی رہنما کی بھی حکمرانی ہوسکتی ہے جواپنے آپ کو عوام کا نمائندہ، خود کو ان کے سامنے جوابدہ اور عوام کو ہی "ملک کا حقیقی سرمایہ اور حقیقی مالک سمجھے"؟ ایں بسا آرزو کہ خاک شدہ

حسن رضا چنگیزی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (9) بند ہیں

sajjadchangezi Dec 18, 2012 04:16pm
Well written piece... Pakistan is indeed in need of sincere, able and pro-people leaders... after 65 years of experiments, it's time we built a structure that accommodates all ethnic and religious/sectarian minority group and guarantees their welfare !!
ًً Mohammad Hussain Dec 18, 2012 06:34pm
وہ ممالک جنہوں نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی وہ بھی آج ہم سے کہیں آگے ہیں۔ سچ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ملک میں ہمیشہ ناکام تجربے ہی کئے۔ بازیچئہ اطفال ہے دنیا میرے آگے۔ ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے۔
شمسس Dec 18, 2012 06:58pm
Waiting for the Return of the Lion King.
شانزے Dec 19, 2012 04:59am
یہاں ھر مداری کے پاس اپنی اپنی ڈفلی ھے جس پہ وھ عوام کو نچا
ishaqalichangez Dec 19, 2012 05:05pm
The way the writer portrayed the irresponsible behavior of our politicians towards our country and people is appreciable. I wish to see Quaid's Pakistan someday under true leadership of true people..
Muhammad Imran Dec 19, 2012 06:19pm
لکھنے والے نے پاکستان کے سیاست دانوں کی حقیقی شکل عوام کے سامنے پیش کی ہے. کسی سیاست دان نے ملک کو عوام کی پراپرٹی سمجھا ہی نہیں، اسی لیے توآج پاکستان کی یہ حالت ہے.ووٹ کے لئے تو عوام کے پاس جاتے ہیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد انہی کو بھول جاتے ہیں.
vicky Dec 19, 2012 06:46pm
itc really help ful amaizing
ر-بیگ Jan 01, 2013 09:13am
اس ملک میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے اخلاص۔جو ڈھونڈنے سے بھی ہمارے سیاستدانوں کے پاس نہیں ملتی۔حسن بھائی نے ہمارےاحساسات کی اچھی منظر کشی کی ہے۔
پاکستان ایک تجربہ گاہ | Changezi.net Aug 03, 2013 07:18am
[…] http://urdu.dawn.com/2012/12/18/pakistan-a-test-laboratory-aq/ […]

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025