• KHI: Partly Cloudy 18.6°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.7°C
  • KHI: Partly Cloudy 18.6°C
  • LHR: Cloudy 12.3°C
  • ISB: Heavy Rain 13.7°C

شدّت پسندی سال کا سب سے اہم مسئلہ رہا

شائع January 1, 2013

پاکستانی قوم طالبان کے خلاف سراپا احتجاج
پاکستانی قوم طالبان کے خلاف سراپا احتجاج

2012 میں پاکستان کا سب سے بڑاچیلنج تشدد آمیز انتہاپسندی اور روزافزوں عسکریت پسندی رہی ہے- ایک سال قبل کی نسبتا مختصر سی خاموشی کے بعد دہشت گردوں کے حملوں اور فرقہ وارانہ ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا-

معاشرےمیں حد سے بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور کمزور ریاستی حکمرانی نے مذہبی انتہاپسندی اورعسکریت پسندی کو اپنے پر پھیلانےکے وسیع مواقع فراہم کر دئیے ہیں- یہ دونوں خطرات ملک کے سماجی تاروپود اور اسکے اتحاد کو بکھیرسکتے ہیں- اپنے خلاف دئے گئے فتوؤں کی مزاحمت کرتے ہوئےعسکریت پسند جتھوں نے بے خوف وخطر اپنی کارروائیاں جاری رکھیں اور باہم طور پر مربوط ایک جال بچھادیا تاکہ تباہ کن اورانتہا درجے کی دہشت گردی کے حملے کئے جاسکیں نیز شہریوں کے خلاف خودکش بمباری کی زیادہ پرتشدد لہر کو بڑھاوا دیا جاسکے-

جیسے جیسے عسکریت پسندوں کی تشدد آمیز کارروائیاں بڑھتی جا رہی ہیں، نہ صرف یہ کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ ان کا طریقہء واردات زیادہ پیچیدہ اور گنجلک ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی انکی شدّت بھی بڑھتی جا رہی ہے- بنوں جیل پر دلیرانہ حملہ جسکے نتیجے میں بہت سے سنگدل عسکریت پسندوں کورہا کرا لیا گیا نیزاعلیٰ سکیورٹی سے لیس کامرہ ایربیس کے محاصرے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے ایک نیا جنم لیا ہے اورزیادہ منظم ہو گئے ہیں-

پشاور سے باہر ایک پولیس اسٹیشن پر تقریبا تین سو مسلح افراد کا حملہ اور ہلاکتیں اور اکتوبر میں متعدد پولیس افسروں کے سر اڑا دینے کی وارداتیں طالبان کی روز افزوں پرتشدد پیش قدمیوں کی غماز ہیں- یہ حملہ ایک ایسی ریاست کو ظاہر کرتا ہے جو تیزی کے ساتھ اپنااثرورسوخ کھو رہی ہے-

پندرہ سالہ ملالہ یوسف زئی پر وحشیانہ حملہ ہمیں سنگینی کے ساتھ اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ عسکریت پسندوں کا تشدد سوات کے ضلعے میں دوبارہ اپنے قدم جمارہا ہے جس کے بارے میں یہ سمجھاجا رہا تھا کہ 2009 کے آپریشن کے بعد اس علاقہ کو طالبان سے پاک کر دیا گیا ہے- اس قابل نفرین واقعہ نے ایک بار پھر ہمیں ان خطرات سے آگاہ کر دیا ہے جو معاشرے کو عسکریت پسندی سے لاحق ہیں-

2012 کے سال میں یہ دیکھا گیا کہ عسکریت پسندوں کے جتھوں نے اقلیتی مسلمانوں اور غیر مسلم فرقوں کے اراکین کوایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیدہ و دانستہ نشانہ بنایا- حتیٰ کہ مسجد، مندر اور مذہبی اجتماعات بھی ان سے محفوظ نہ رہ سکے-

فرقہ وارانہ نسل کشی کی ایک انتہائی ہولناک کارروائی فروری میں رونما ہوئی جبکہ مسلح افراد نے شمال مغربی کوہستان کے علاقے میں ایک مسافر بس پر گھات لگا کر حملہ کیا اور شناختی کارڈوں کی مدد سے پچیس شیعوں کو چن کر، جن میں تین بچے بھی شامل تھے بے رحمی سے قتل کردیا- اسی قسم کے واقعات کوئٹہ میں بھی ہوئے جہاں فرقہ واریت پسند عسکریت پسندوں نے خاص طور پر شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو اپنا نشانہ بنایا جہاں ان کی آبادی اکثریت میں تھی-

گوکہ شیعہ کمیونٹی ان کا اصل نشانہ تھی کئی ایک اعتدال پسند سنی مذہبی رہنما بھی اس خونریز فرقہ وارانہ جنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے- عیسائی اور احمدی بھی ان کے تشدد کا نشانہ بنے جن پر لوگوں کے ہجوم نے کفر کا الزام لگا کر حملے کئے-

ان تمام واقعات کو یقینی طور پر انفرادی نوعیت کے واقعات نہیں کہا جاسکتا ہے- یہ سارے واقعات بحیثیت مجموعی ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور مذہبی عسکریت پسندی کو ظاہر کرتے ہیں- فرقہ وارانہ ہلاکتوں کو ہوا دینے والے اور سیکورٹی تنصیبات پر حملہ کرنے والے دہشت گرد انتہا پسندی کے ایک جیسے عالمی نظریے کے حامل ہیں-

لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان جیسی فرقہ وارانہ تنظیموں کے مابین ایک مضبوط گٹھ جوڑ دیکھنے میں آرہا ہے- بہت سارے واقعات میں تو ٹی ٹی پی شیعہ برادری پر ہونے والے حملوں میں براہ راست طورپرملوث ہے- تاہم، اس سے زیا دہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ریاست قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے کی اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہو گئی ہے، نہ ہی اپنے شہریوں کوتحفظ فراہم کرتی ہے- اگرچہ ان فرقہ وارانہ تنظیموں کو تکنیکی لحاظ سے غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے وہ علانیہ طور پرعوامی اجتماعات میں اپنےعدم برداشت اور انتہا پسندی کے نظریات کو فروغ دینے میں اور اپنے زہریلے ادب کو پھیلانے میں آزاد ہیں-

ایک طرف تو حکومت میں سیاسی عزم کی کمی نے اور دوسری طرف پرتشدد انتہاپسندی کے خلاف لڑنے کیلئے ایک مربوط حکمت عملی کو تشکیل دینے میں اس کی ناکامی نے عسکریت پسندی کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ہے- دہشت گردوں کے نیٹ ورک نے دیگر انتہا پسندوں کے ساتھ اتحاد قائم کرکے بھی قوت حاصل کرلی ہے-

امریکی اورپاکستانی افسروں کے ان دعووں کے برخلاف کہ القاعدہ کو بے دست و پا کردیا گیا ہے اس کے نیٹ ورک نے قبائلی علاقوں میں اپنے قدم جما لئے ہیں اور علاقائی سکیورٹی کیلئے ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے- پاکستان میں القاعدہ کی ایک نئی نسل نمودار ہوئی ہے جو بنیادی طورپر اس میں بھرتی ہونیوالے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ متوسط طبقے پر مشتمل ہے- 2009  کا فوجی آپریشن طالبان کو سوات اور جنوبی وزیرستان میں واقع ان کے بیشتر ٹھکانوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا تھا- لیکن فوج کا یہ غلبہ عارضی تھا کیونکہ ان کے بہت سے سرکش رہنما فرار ہو چکے تھے-

مزید یہ کہ، شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں پاکستان کی ریاست کیلئے آج بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہیں- قانون سے بالاتر اس علاقے میں عسکریت پسندوں کے بہت سے جتھوں --پاکستانی طالبان، افغان طالبان سے لیکرالقاعدہ  کے بھگوڑوں تک-- کی موجودگی کو بجا طور پر عسکریت پسندی کا مرکز ثقل کہا جاتا ہے

پاکستانی شہروں میں ہونیوالے دہشت گردوں کے بہت سے حالیہ حملوں کی جڑیں اس علاقے میں پیوست ہیں- پاکستان کے سیکورٹی افسران اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ عسکریت پسندی کیخلاف جنگ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ شمالی وزیرستان سے ان کی پناہ گاہوں کو نیست و نابود نہیں کر دیا جاتا- لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کےخلاف  کارروائی شروع کرنے کا کوئی منصوبہ ابھی تک بنایا نہیں گیا ہے-

گوکہ رائے عامہ عسکریت پسندی کے خلاف ہے ، لیکن ریاست کی جانب سے کوئی متفقہ کوشش نظر نہیں آتی کہ عوام کی اس قوت کو استعمال  کرکے پر تشدد انتہاپسندی کی لہر کو روکنے کی مربوط حکمت عملی تیار کی جائے -

ملالہ کا واقعہ بجا طور پر تشدد آمیز انتہا پسندی اور اس کے زہریلے عقائد کیخلاف پاکستان کی جنگ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے سیاسی قیادت اپنی نااہلیت کی بنا پر کوئی واضح منصوبہ تیار نہ کر سکی اور اس موقع کو ضائع کر دیا گیا-

بلا شبہ، سکیورٹی فورسز نے قبائلی علاقوں میں طالبان کی سرکشی کو کچلنے میں چند اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن موثر انتظامیہ کی غیر موجودگی میں یہ کامیابیاں عارضی ثابت ہو سکتی ہیں-

پاکستان نے 2012 میں اپنی نادانیوں سے کوئی سبق سیکھا یا نہیں یہ ہمیں صرف 2013 کا سال ہی بتا سکتا ہے-


مضمون نگار صحافی و مصنف ہیں۔

[email protected] | Twitter: @hidhussain

ترجمہ: سیدہ صالحہ

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025