siachen-670
فوٹو اے ایف پی۔۔۔۔۔۔

ڈان اخبار میں فائزہ الیاس لکھتی ہیں کہ حال ہی میں شایع ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ سیاچن گلیشیئر درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے پگھل رہا ہے اور انیس سو نواسی سے دوہزار نو کے درمیانی عرصے میں یہ گلیشیئر طول بلد میں  پانچ اعشاریہ نو کلو میٹر تک سکڑ گیاہے۔

سیاچن، ہمالیہ کے شمالی پہاڑی سلسلے میں واقع دنیا میں سب سے بلندی پر قائم فوجی محاذ اور زمین پر موجود دوسرا بڑا گلیشیئر ہے۔ یہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کا سبب ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی اب تک کی جنگوں میں یہ تنازع سرفہرست رہا ہے۔ اسی پہاڑی سلسلے میں  دنیا کی دوسری سب سے بلند چوٹی کے ٹو بھی واقع ہے۔

متنازع کشمیر میں پہاڑوں کے بلند مقام پر واقع سیاچن گلیشئر پر ہندوستان  اور پاکستان کی افواج 1980ء کی دہائی سے ہی جنگ کی سی حالت میں موجود ہیں۔  سیاچن کا غیر آباد علاقہ سطح سمندر سے بیس ہزارفٹ یعنی چھ ہزار میٹر تک بلند ہے۔  یہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں اور فوجی سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں تو بہت جلد ہی اسے دنیا کے آلودہ ترین گلیشیئر کا خطاب بھی دیا جا سکتا ہے۔

چند سال قبل انڈین کشمیر میں کشمیر یونیورسٹی کے جیولوجی اور جیوفزکس ڈیپارٹمنٹ کی ایک ریسرچ رپورٹ سے یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ ہمالیہ کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فوجی سرگرمیوں نے سیاچن ہی نہیں ہمالیہ کے دیگر گلیشیئر پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں، جن میں خاص طور پر گنگوتری، مائیر، ملن اور جناپا نامی گلیشئر کے نام شامل ہیں جن سے دریائے گنگا ، چناب اور ستلج پانی حاصل کرتے ہیں۔ ماہرین  نے خبردار کیا تھا  کہ اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو جنوبی ایشیا کے لاکھوں افراد کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

کشمیر یونیورسٹی کی مذکورہ رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ گزشتہ چند عشروں کے دوران سیاچن گلیشیئر اپنے ابتدائی سائز سے گھٹتے گھٹتے اب محض نصف رہ گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس گلیشیئر کی ابتدائی لمبائی ڈیڑھ سو کلومیٹر تھی جو کم ہو کر  74 کلومیٹر رہ گئی ہے۔

فائزہ الیاس نے ڈاکٹر غلام رسول کی ایک تحقیقی کتاب جو : کلائیمٹ ڈیٹا اینڈ ماڈلنگ اینالیسز آف دا انڈس ایکو ریجن، کے زیرعنوان شایع ہوئی ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے سیاچن سے متعلق کچھ حقائق بیان کیے ہیں۔ یہ تحقیق پاکستان میٹریالوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے زیرانتظام جاری ایک پروجیکٹ کا حصہ ہے، جس کے لیے یورپین یونین نے اپنے بین الاقوامی فنڈ برائے قدرتی ماحول کے تحفظ کے تحت سرمایہ فراہم کیا تھا۔

ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلے  پر قطبین کے برفانی براعظم کے بعد تیسرا بڑا برفانی ذخیرہ موجود ہے، جس سے لگ بھگ ایک ارب ستر کروڑ انسانوں کو میٹھا پانی فراہم ہوتا ہے۔ ہمالیائی گلیشیئرز کی اہمیت اس وجہ سے بھی بہت زیادہ ہے کہ اس سے کئی اہم دریا نکلتے ہیں جو بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں جا گرتے ہیں۔ یہ جنوب اور مشرقی ایشیا کے بیشتر دریاؤں کا منبع ہے، جہاں سے گنگا، سندھ اور میکانگ بہتے ہیں۔

اسی اہمیت کے پیش نظر انڈیا میں  گلشیئر کے بارے میں ہونے والی تمام ریسرچ کا بنیادی نکتہ نظر  دفاعی مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔ وہاں گلیشیئرز کے متعلق معلومات آفیشیل سیکریٹ کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان کی فائلوں کو دفاع اور انٹیلی جنس کی فائلوں کی طرح خفیہ رکھا جاتاہے۔ انڈین حکومت کا موقف ہے کہ یہ گلشیئر حساس سرحدی علاقوں میں واقع ہیں اس لیے ان معلومات کو عام نہیں کیا جاسکتا، لیکن انڈیا کے بعض  ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکومت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ آبی تنازعات کے باعث ان معلومات کو  منظرِ عام پر نہیں لاتی ہے۔

یاد رہے کہ انڈیا کا پاکستان کے ساتھ دریائے سندھ اور بنگلہ دیش کے ساتھ گنگا کے پانی کی تقسیم پر تنازع چلتا رہتا ہے۔ تاہم انڈیا کے ہی بہت سے ماہرین اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ  یہ معلومات اب عام کی جانی چاہیے تاکہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے درست اور بروقت اقدامات ممکن ہوسکے۔ اس سوچ کے حامل ماہرین کا ماننا ہے کہ ماحولیات کا تحفظ سرحدوں کے تحفظ سے زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ انسانی بقا سے وابستہ ایک مسئلہ ہے۔

ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے شمال سے آنے والی برفانی ہواؤں کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں، جس سے یہاں کے موسم پر مثبت اثرات مرتب  ہوتے ہیں۔دنیا بھر میں جاری  گلوبل وارمنگ کی وجہ سے یہاں بھی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔

قدرتی ماحول کو تحفظ دینے کے لیے قائم عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف  کی ایک رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشیئر جس تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں ان کے پگھلاؤ کی موجودہ رفتار کو اگر  پیش نظر رکھا جائے تو اندیشہ ہے کہ آئندہ چار عشروں میں بلندو بالا پہاڑوں کی چوٹیوں سمیت شمالی اور جنوبی قطبی علاقوں میں بھی شاید برف باقی نہ رہے،جس سے ناصرف اردگرد کے خطوں کے قدرتی ماحول میں غیریقینی تغیرات رونما ہوں گے بلکہ سمندروں کی سطح بلند ہونے سے کئی ساحلی علاقوں کے ڈوب جانے کا خطرہ بھی ہے۔

گزشتہ سال سیاچن میں ایک بڑابرفانی تودا گرنے سے  پاکستانی فوج کے سوا سو فوجی دب گئے تھے، اس المناک واقعے کو ماہرین نے زمین کے قدرتی توازن میں انسانوں کا  پیدا کردہ بگاڑ قرار دیا تھا۔ ماہرین نے دلیل دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ افسوسناک واقعہ ہمالیہ کے صرف اسی گلیشیئر پر پیش آیا ہے جہاں پاکستان اور بھارت کے فوجی دستے موجود ہیں۔

گوکہ  1990ء کے بعد سے دنیا کے تمام گلیشیئر کے پگھلاؤ کی رفتار میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان گلیشیئرسے منسلک دریاؤں میں سیلابی کیفیت بھی معمول سے بڑھ رہی ہے اور بڑی مقدار میں پانی سمندر میں داخل ہورہا ہے۔

لیکن سیاچن گلیشیئر پر درجہ حرارت میں اضافہ، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بے تحاشہ اخراج اور فوجی سرگرمیوں کے اثرات کی وجہ سے ہوا ہے۔ پالیسی انسٹی ٹیوٹ برائے پائیدار ترقی اسلام آباد کے پانی اور توانائی سے متعلق مشیراور گلیشیئرز کے بارے میں ماہر ارشد ایچ عباسی کا کہنا ہے  کہ سیاچن گلیشیئرز میں درجہ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجہ وہاں بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت ہے۔ فورسز اپنے بنکر ز، کیمپ،ہیلی پیڈز اور ایئرفیلڈ بنانے کے لیے صدیوں پرانے گلیشیئرز کو توڑنے اور پگھلانے کے لیے مختلف کیمیکلز کا استعمال کرتی ہیں۔

ارشد عباسی اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں  کہ عالمی درجہ حرارت کے باعث سیاچن گلیشیئرز پگھل رہا ہے، ا نہوں نے ناساکی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ قراقرم میں موجود 56 فیصد گلیشیئرز پھیل رہے ہیں اور اگر ملحقہ گلیشیئرز پھیل رہے ہیں تو پھر صرف انسانی مداخلت ہی ایسی وجہ ہے جو سیاچن کو پگھلا کر اس کے حدود اربع کو کم کررہی ہے۔

پالیسی انسٹی ٹیوٹ برائے پائیدار ترقی  کے ماہر ارشدعباسی کے نکتۂ نظر  کی تصدیق ہمالیائی گلیشیئرز پر تحقیق میں مصروف ایک فرانسیسی ٹیم کی ریسرچ کے ذریعے بھی ہوجاتی ہے، جس سے ثابت ہوا ہے کہ 2000ء  سے 2008ء  تک یہ گلیشیئرز ناصرف یہ کہ پگھلے نہیں بلکہ ان کی برف کی تہہ میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جو کہ ایک اعشاریہ گیارہ ملی میٹرز فی برس کے لگ بھگ ہے۔

فرانسیسی ماہرین کا کہنا ہے  کہ قراقرم کی صورتحال دنیا کے دیگر برفانی علاقوں سے مختلف ہے اور فی الوقت یہاں کے گلیشیئرز میں استقامت دکھائی دیتی ہے۔ تاہم ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جانا چاہیئے کہ مجموعی طور پر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ فرانسیسی ماہرین کی یہ تحقیق نیچرل جیو سائنس نامی جریدے میں شائع ہوئی تھی۔ فرانسیسی ماہرین نے اپنی تحقیق میں سیاچن گلیشیئر کو شامل نہیں کیاتھا۔

سیاچن گلیشیئر کے بارے میں ایس ڈی پی آئی یا ادارہ برائے پائیدار ترقی کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ یہ گلیشیئر پینتیس برسوں میں دس کلومیٹر تک سُکڑ گیا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح نہیں ہوسکی ہے کہ اس خطے کے دیگر برفانی تودے گلوبل وارمنگ سے کس طرح بچے ہوئے ہیں، کیوں کہ اس علاقے میں گرمی کی لہر کم اور برف کے جمنے کا عمل زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔

دوسری جانب بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے پاکستان بُری طرح متاثر ہوا ہے، گزشتہ چند سالوں کے دوران غیر متوقع طور پر شدید بارشیں، دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے کافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تحقیق کے مطابق کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ دونوں طرزوں میں درجہ حرارت معمول سے کہیں زیادہ تبدیل ہوا ہے۔ؕ

تبصرے (0) بند ہیں