tarbela-dam 670
فائل فوٹو۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد: واپڈا کی جانب سے متعین کیے گئے ایک آزاد کنسلٹنٹ نے کہا ہے کہ تربیلا ڈیم سے ریت اور مٹی کی صفائی اب قابل عمل نہیں رہی۔

کنسلٹنٹ کا مزید کہنا ہے کہ ڈیم کی صفائی ناصرف معاشی طور پر بہت بھاری پڑے گی بلکہ تیکنیکی حوالوں سے یہ عمل پاکستان کے سب سے بڑے پن بجلی گھر اور پانی کے عظیم ذخیرے کو بھی نقصان پہنچائے گا۔

ایک سینئر سرکاری اہلکار نے ڈان سے گفتگو میں بتایا واپڈا نے ڈیم کی صفائی کے حوالے سے فزیبیلیٹی رپورٹ کی تیاری کے لیے ایک چینی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی تھیں، تاکہ ڈیم کی اُس تیس فیصد صلاحیت کو دوبارہ بحال کیا جاسکے جو گزشتہ کئی سالو ں سے ختم ہوچکی ہے۔

تربیلا ڈیم کی تعمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کے تحت عالمی بنک کے تعاون سے 1978ء میں مکمل ہوئی تھی۔

اب اس ڈیم کی تہہ میں مسلسل مٹی اور ریت کے جمع ہونے سے اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نو اعشاریہ چھ ملین ایکڑ فٹ سے گھٹ کر چھ اعشاریہ چھ ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔

سرکاری عہدے دارکا کہنا تھا کہ فزیبیلٹی رپورٹ سے یہ تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ڈیم کی صفائی  کے لیے ایک بہت بڑی مشق شروع کرنا معاشی طور پر نقصان دہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ: ‘ڈیم کی تہہ میں مٹی کی گاد، ریت اور پتھر کو نکالنے پر جس قدر اخراجات ہوں گے، اتنی ہی رقم سے ایک نیا ڈیم تعمیر ہوجائے گا۔'

عہدے دار نے یہ بھی بتایا کہ دریا ڈیم کے اندر سالانہ  پچاس ہزار ٹن  ریت اور مٹی کی گاد پانی کے ساتھ انڈیل دیتا ہے، نتیجتاً ڈیم کے اندر پانچ کلومیٹر کا طویل حصہ ڈیلٹا کی سی صورت اختیار کرگیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پچیس ایکڑ سے بڑا رقبہ ڈیم کی تہہ میں ریت اور مٹی کی گاد سے پُر ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے ڈیم کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پر تین ملین ایکڑ فٹ تک کمی آئی ہے۔

واپڈا کے ایک اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ چینی کنسلٹنٹ کمپنی اپنی رپورٹ پیش کرچکی ہے، جس کے بعد اس پر غور جاری ہے۔

اس رپورٹ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ واپڈا تربیلا کی صفائی جیسے مہنگے عمل کو نہیں اپنائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ فزیبیلٹی رپورٹ دراصل تربیلا کے چوتھے توسیعی منصوبے کا حصہ تھی، جس کے تحت تربیلا سے بجلی کی پیداوار کو بڑھا کر چودہ ہزار میگاواٹ کیا جانا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تربیلا ڈیم کی عمر کا اندازہ پچاس سال تک لگایا گیا تھا، جس کی رو سے یہ ڈیم 2029ء تک کام کرتا رہے گا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ڈیم میں ریت اور مٹی کی گاد جمع ہونے کا عمل حالیہ برسوں کے دوران کچھ سُست رہا ہے، جس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ڈیم کی قابل استعمال عمر 85 برس یعنی کہ 2060ء تک جا سکتی ہے۔

یہاں اس حقیقت کو بھی مدّنظر رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں پانی کی فی کس دستیاب مقدار جو 1960ء میں پانچ ہزار ایک سو کیوبک میٹر تھی اب گھٹتے گھٹتے نو سو پچھتر کیوبک میٹر فی کس رہ گئی ہے۔

اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان پانی کی قلت کے شکار ممالک میں شامل ہوچکا ہے۔

اس خطرناک صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو ہر دس سال بعد تربیلا کے سائز کا ایک ڈیم تعمیر کرنا تھا، لیکن پاکستانی حکومتوں اور منصوبہ سازوں کی ناکامی اور غفلت کی وجہ سے تربیلا کی تعمیر کے بعد چالیس سالوں کے دوران ایک ڈیم بھی تعمیر نہیں کیا جا سکا۔

تربیلا ڈیم کا چوتھا توسیعی منصوبہ اس کی بجلی کی پیداواری صلاحیت کو تین ہزار پانچ سو میگاواٹ سے بڑھا کر چار ہزار نوسو میگاواٹ تک پہنچا دے گا۔

عالمی بینک نےپاکستانی حکومت سے ایک معاہدے کے تحت واپڈا کو اس مقصد کے لیے آٹھ کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کی رقم دی ہے، جو اس پروجیکٹ کے مکمل تخمینے کا نوّے فیصد ہے۔

اس کی تکمیل 2016ء میں متوقع ہے، یہ2004ء میں مکمل ہونے والے چودہ سو پچاس میگاواٹ کے غازی برو تھا پروجیکٹ کے بعد پہلا سب سے بڑا ہائیڈروپاور منصوبہ ہوگا۔

یہ منصوبہ واپڈا کی کم از کم قیمت کی پاور جنریشن کو قومی گرڈ شامل کرنے اور مجموعی طور پر بجلی کے نرخوں کو مستحکم بنانے کے علاوہ بجلی کی فراہمی کے قومی نظام میں ہائیڈل بجلی کے تناسب کو بہتر بنانے کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔

اقتصادی طور پر قابل عمل یہ منصوبہ چار سال کے عرصے میں مکمل ہوجائے گا، جس سے سالانہ تیس ارب روپے کی آمدنی ہوسکے گی، یوں تین سال کے اندر اندر یہ منصوبہ اپنی مکمل لاگت لوٹا دے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں