جانے کس جرم کی پائی ہے سزا؟
ابّو یہ کون لوگ ہیں جو آئے دن ہمیں قتل کرتے رہتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو میری بیٹی مجھ سے کئی مرتبہ پوچھ چکی ہے۔
اسکول سے اُ س کی واپسی ہمیشہ ڈھیر سارے سوالوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایک دن جب وہ سکول سے گھر لوٹی تو کچھ زیادہ ہی ڈسٹرب نظر آئی۔ پوچھنے پر بتایا کہ آج جن دو افراد کو دفتر جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے اُن میں سے ایک میری اُس سہیلی کے ابّو تھے جو روزانہ میرے ساتھ ایک ہی گاڑی میں اسکول جایا کرتی تھی۔
آج وہ راستے بھر روتی ہوئی آئی ہے۔ ابّو یہ ہمیں آئے روز کیوں مارتے رہتے ہیں؟ بیٹی نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا پھر مجھے خاموش دیکھ کے خود ہی بولنے لگی، ”آج میری ایک کلاس فیلو نے بھی مجھ سے یہی سوال پوچھا تھا“
میں نے کہا پھر تم نے کیا جواب دیا؟
کہنے لگی، "میں نے اسے بتایا کہ جو آئے دن ہمیں مار رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہم سے جلتے ہیں، جو تعلیم، صفائی اور محنت سے ہماری وابستگی سے خوف زدہ ہیں۔ لیکن ابّو کیا تعلیم حاصل کرنا، بھیک مانگنے کے بجائے محنت مزدوری کرنا اور صاف ستھرا رہنا اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی وجہ سے ہمیں قتل کر دیا جائے؟"
اب میں اُسے کیا بتاتا کہ اس تنگ نظر معاشرے میں تو ہمارے جرائم کی ایک طویل فہرست ہے اور ہر جرم اس قابل ہے کہ جس کے نتیجے میں ہمیں سولی پر لٹکایا جائے۔کیا یہ کوئی معمولی جرم ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں تعلیم کی شرح شرمناک حد تک کم ہے وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے زیادہ اہمیت تعلیم ہی کو دیتے ہیں اور جن کی نئی نسل میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان 100 فیصد ہے؟ تبھی تو سکول، کالج اور یونیورسٹی جانے والے ان کے طلباء اور طالبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
لیکن اُس نے میرے جواب کا زیادہ انتظار نہیں کیا اور پوچھنے لگی ”ابّو ان غریب مزدوروں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کہ ہر دوسرے دن اُن کو 'ٹارگٹ' کیا جا رہا ہے؟
میں نے اُسے بتانا چاہا کہ اب ایک ایسے معاشرے میں جہاں حکمرانوں نے خود تو بھیک مانگنے کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور اپنی نالائقی اور غلط طرزِ حکمرانی سے عوام کوبھی خودکشیوں اور بھیک مانگنے پر مجبور کردیا ہے وہاں دستِ سوال دراز کرنے کے بجائے محنت مزدوری کرکے روزی روٹی کمانے والوں کا جرم کیا اس قابل نہیں کہ انہیں سبق سکھایا جائے؟ اسی لئے تو آئے روز مزدوروں کو خون میں نہلایا جاتا ہے۔
لیکن شاید وہ آج کچھ زیادہ سوال کرنے کے موڈ میں تھی لہٰذا میرے جواب دینے سے پہلے پھر پوچھ بیٹھی ”کیاصاف ستھرا رہنا اور اپنے گھر محلے کو صاف رکھنا بھی بری بات ہے؟"
میں نے پھر اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسے شہر میں جہاں حکومتی کارندوں کی بے حسی اور لوٹ مار کے باعث ہر طرف گندگی کے ڈھیر پڑے ہوں، ہر کونے کھدرے سے تعفن اُٹھ رہا ہو اور لوگ بھی اداروں پر اپنی نظریں جمائے بیٹھے ہوں اگر وہاں کچھ لوگ اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ اپنے گلی کوچوں اور محلوں کو بھی صاف ستھرا رکھتے ہوں تو کیا یہ جرم بھی اس قابل ہے کہ اسے معاف کیا جائے؟ تبھی تو گلی کوچوں اور سڑکوں کو بار بارہمارے خون سے رنگا جاتا ہے۔
میں اُسے یہ بھی بتانا چاہ رہا تھا کہ تعلیمی درسگاہوں کے اُستاد اور وہ دانشور اور سیاست دان بھی تو مجرم ہیں جو علم بانٹنے، نفرتوں کو کم کرنے اور محبتوں کو پروان چڑھانے کی تگ و دو کرتے رہتے ہیں اسی لئے تو اُن کے سروں میں گولیاں مار کر ان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا جاتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ اپنی بیٹی کو آج یہ بھی بتا دوں کہ جب سرکاری نوکریوں کا بازار لگتا ہے تو ہر ایک وزیراور بڑے افسر کی کوشش ہوتی ہے کہ”اپنے“ ہی لوگوں کو نوازے لیکن ایسے میں کچھ نوکریاں ہم جیسوں کے لئے بھی رکھ چھوڑتے ہیں کہ کچھ تو ایسے بھی ہوں جو کام بھی کرتے ہوں تاکہ دفتر کے معاملات خوش اسلوبی سے چلتے رہیں۔ اب ایسے ماحول میں جب زیادہ تر لوگ محنت سے جان چھڑاتے ہوں ان جیسے لوگوں کی”شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری“ کیا ایسا جرم نہیں کہ جس کو لگام دینے کی ضرورت پڑے؟ اسی لئے تو ہمارے سرکاری ملازمین کو بھی تاک تاک کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔
لیکن اس سے پہلے کہ میں یہ ساری باتیں اُسے بتاتا اُس نے ایک نیا سوال داغا۔ ”ابّو میں نے سنا ہے کہ ہمارے قبیلے کے لوگوں نے پاکستان کی بہت خدمت کی ہے اور بہت قربانیاں بھی دی ہیں، کیا جنرل موسیٰ نے اس ملک کی خدمت نہیں کی؟ میری مس بتاتی ہے کہ ہمارے جوانوں اور بزرگوں نے ہر میدان میں اپنے ملک اور مٹی سے وفاداری نبھائی ہے، لیکن ہمارے یہ پاکستانی بھائی پھر بھی ہمیں قتل کئے جارہے ہیں، کیا وطن اور قوم کے ساتھ وفاداری نبھانے کا یہی انعام ملتا ہے“؟
میرے پاس اس سوال کا اس کے سوا کوئی جواب نہیں تھا کہ یہ بھی ہمارے جرائم میں ہی شامل ہے جس کی ہمیں سزا مل رہی ہے۔ میں اُسے بتانا چاہ رہا تھاکہ ہمارا ایک ناقابلِ معافی جرم یہ بھی ہے کہ ہم عقیدے، زبان، ثقافت اور عددی اعتبار سے ”اقلیت“میں ہیں اور شاید یہی ہمارا سب سے بڑا جرم ہے کیوں کہ اقلیت میں ہونا بذات خود ایک ناقابل معافی اور سنگین جرم ہے۔
جی چاہ رہا تھا کہ اسے یہ بھی بتادوں کہ جو ہمیں ختم کرنے کے درپے ہیں اُن کی نظر میں ہماری مائیں،ہمارے بزرگ اور ہمارے بچّے سارے مجرم ہیں کیوں کہ وہ ہزارہ ہیں، ہمارے قاتلوں کی نظر میں ہمارا وجود ہی سب سے بڑاجرم ہے۔تبھی توبسوں سے اُتار اُتار کر اور شناخت کے بعد ہی ہمیں قتل کیا جاتاہے۔
آج میں دل کھول کے اپنی بیٹی کو اُس کے سارے سوالوں کے جواب دینا چاہ رہا تھا میں چاہ رہا تھا کہ اسے بتادوں کہ ہم پاکستان کو اپنا وطن اور اپنی سرزمین جان کے اس کی خدمت کر رہے ہیں اور اس کے لئے قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ہم نے ہر مرحلے پر اس مٹی سے اپنی وفاداری ثابت کی ہے لیکن افسوس، حکمران ہمارے قاتلوں کو پکڑنے کے بجائے فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے ٹرک بھر ٹشو پیپر بھیج دیں گے تاکہ ہم اپنے بہتے آنسو پونچھ سکیں، کوئی ہمارے کاروبار اور ہماری جائیدادوں پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔
اور عام لوگ!؟ وہ فی الحال اس بات سے مطمئن ہیں کہ آگ تومحض ان کے ہمسایوں کے گھر لگی ہے جبکہ وہ خود اپنے گھروں میں محفوظ ہیں۔ جہاں تک قاتلوں کی بات ہے تو انہوں نے شاید سلیمانی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں یا پھر وہ یقینا فرشتے ہونگے جو کسی کو نظر ہی نہیں آتے۔ میں نے اپنی ساری توانائی جمع کی اور اسے یہ سب بتانے کی تیاری کرنے لگا۔ لیکن اس پر نظر پڑی تو دیکھا کہ وہ سو گئی تھی، شاید اُسے مجھ سے کسی جواب کی توقع نہیں تھی یا پھر شاید وہ بھی جان چکی تھی کہ ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں۔
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا۔۔۔؟











لائیو ٹی وی
تبصرے (6) بند ہیں