۔ — ڈان فوٹو
۔ — ڈان فوٹو

سچل عباسی دنیا کی تجارتی تنظیموں اور اداروں کے بحران بڑھانے میں کردار کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ 

سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ، سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ ملٹن فریڈمین کی توثیق اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں (آئی ایف آئی) کی جانب سے شرطوں اور فنانسنگ نافذ کیے جانے کے بعد نیو لبرل اکانومیز پالیسی سازی کے لیے جلد ہی مرکزی دھارے میں شامل ہوگئیں۔

اس پیش رفت کے بعد سے ورلڈ بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) نے سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا اور کارپوریشنوں کو وہ رسائی فراہم کی جو اسے سے قبل صرف نو آبادیاتی یا غلامی کے دور کی ضرورت تھی۔

ان شرائط کے اطلاق سے بہت سے ممالک کو سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی اعتبار سے نقصان ہوا۔ جن ممالک میں کامیابی ہوئی وہاں بھی صرف چند ہی زاویوں سے اسکا فائدہ دیکھا گیا جبکہ وسیع تر خوشحالی اور سماجی فوائد بہت محدود تھے۔ خوراک کا عدم تحفظ ان پالیسیوں کی وجہ سے سنگین مسئلہ اختیار کرگیا۔

پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کا بگڑتا رجحان نمایاں ہے اور آئی ایف آئی کی شرائط، آزاد کاروبار کی پالیسیوں اور کارپوریٹ زرعی فارمنگ میں اضافے کو اسکا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان وجوہات کے باعث پاکستان کی بین الاقوامی تجارت میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جو ملک کبھی غذائی اعتبار سے خود کفیل ہوتا تھا، آج خوراک کے عدم تحفظ اور غذا کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کررہا ہے۔

اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام جنرل ضیاء کے دور میں متعارف کروایا گیا تھا جسکا مقصد ترقیاتی کاموں کے لیے مالیاتی قرضوں کا حصول تھا۔ تاہم پاکستانی زراعت کے شعبے پر کاروباری لبرلائزیشن کا اطلاق دوحہ میں ہونے والی ڈبلیو ٹی او کانفرنس کے بعد ہوا۔

اسلام آباد میں مقیم معروف عوامی پالیسی کے تجزیہ کار شفقت منیر وضاحت کرتے ہیں کہ 'چونکہ پاکستان ڈبلیو ٹی او کے بانی ارکان میں سے ایک ہے اور اسکی اسکیموں سے مختلف محکموں، اداروں اور وزارتوں کے ذریعے مستفید ہوتا رہا ہے اسی وجہ سے اس کے اندر تجارت کی رکاوٹوں کو کم کرنے کے لئے مصروف عمل ہے.

وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک ایسا نظام متعارف کرایا جا چکا ہے جو کارپوریٹ اداروں کی طرف سے بڑے لینڈ ہولڈنگ کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ کاروباری لبرلائزیشن اور کارپوریٹ فارمنگ ترقی پذیر ممالک کے لیے مناسب نہیں ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی تجارت میں لبرل پالیسوں کو ماضی میں بھی قوموں کے درمیان عدم مساوات کی آب و ہوا کو تقویت دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ترقی یافتہ دنیا زرعی شعبے کو سبسڈی دے کر بین الاقوامی منڈی میں سستی مصنوعات کی بارش کردیتی ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی زرعی مصنوعات کی قدر کم ہوجاتی ہے جبکہ ان ممالک کی آبادی رزق کے حصول کے لیے انہی مصنوعات پر انحصار کررہی ہوتی ہیں۔

بین الاقوامی منڈیاں ابھی بھی پاکستان کی گھریلو منڈی کے مقابلے میں زرعی مصنوعات پر زیادہ منافع دیتی ہیں تاہم اسے ابھی بھی برآمدات کی مد میں زیادہ منافع والا کاروبار نہیں کہا جاسکتا۔

نتیجتاً، ہماری پیداوار کا زیادہ تر حصہ تھوڑی سی زیادہ منافع بخش قیمت پر برآمد کردیا جاتا ہے تاہم یہ منافع اتنا زیادہ نہیں ہے کہ امیر زمینداروں سے عام آدمی تک منتقل ہوسکے۔ اسکی وجہ سے عام افراد کی قوت خرید کم ہورہی ہے ہے۔ یہاں تک کے لوگ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے وضع کردہ غذائیت کے معیار کے مطابق بھی اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتے۔

بڑھتی ہوئی برآمدات کی وجہ سے معاشرے کے غریب طبقوں کو دوہرا جھٹکا لگتا ہے۔ ایک طرف تو غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف گھریلو سپلائی میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی برآمدات اور آبادی کی وجہ سے پاکستان میں خوراک کے عدم تحفظ کا امکان ہے۔

روایتی کسان کارپوریٹ فارموں کی پیداواری قوت اور مہارت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اسکی آمدنی میں بہت تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے جبکہ اسکی زیادہ آرگینک مصنوعات ضائع ہورہی ہیں۔

شرکت گاہ کے ماحول اور روزگار کے مینیجر طاہر حسنین کہتے ہیں کہ کارپوریٹ فارموں پر گھریلو منڈی میں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے اور اسٹیپل کروپ کی نضبت انکی مصنوعات سے زیادہ منافع بھی ملتا ہے۔ منیر بھی اسی رجحان میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ زیادہ تر زرعی وسائل بائیو فیول کے لئے خام مال کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

تجارت کی لبرلائزیشن اور کارپورائیزیشن چند معاشی ہندسوں کو تبدیل کرنے کے مقابلے میں دور رس نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ کارپوریٹ فارمنگ کاشتکاری کے طریقوں پر بھی اثر انداز ہورہی ہے جن کو پروان چڑھنے میں صدیاں لگی تھیں۔ ادھر پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لیے انسانی صحت کے لیے مضر ادویات کا رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے۔

کسی بھی سماجی یا ماحولیاتی آڈٹ کے بغیر ہماری قابل کاشنت زمین کو ہوئے نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبے کی سالمیت سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے وجود کا انحصار صرف خود کے لیے ضروری نہیں بلکہ دیہی علاقے بھی اس سے متاثر ہوں گے۔

یہ شعبہ نہ صرف خوراک کی پیداوار کا ذریعہ ہے بلکہ آمدنی اور معاشی طاقت بننے کا بھی ذریعہ ہے جو غذائی تحفظ کے لیے لازمی ہے۔

تحریر: سچل عباسی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں