• KHI: Sunny 24.2°C
  • LHR: Sunny 17.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 16.5°C
  • KHI: Sunny 24.2°C
  • LHR: Sunny 17.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 16.5°C

' آئی ایس آئی مراکز سی آئی اے کے زیرِ استعمال رہے'

شائع February 8, 2013

۔ —اے ایف پی فوٹو
۔ —اے ایف پی فوٹو

واشنگٹن: ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان مشتبہ دہشت گردوں کو ڈھونڈنے میں امریکی سی آئی اے کی مکمل معاونت کے ساتھ ساتھ انہیں ملک کے اندر حراستی مراکز میں رکھنے اور تحقیقات کرنے بھی سہولت بھی فراہم کرتا رہا ہے۔

واشنگٹن کی ایک غیر سرکاری انسانی حقوق کی تنظیم 'اوپن سوسائٹی جسٹجس انیشیئٹیو' نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ پاکستان نے سی آئی اے کے کہنے پر سینکڑوں لوگوں کو پکڑا، حراستی مراکز میں ان پر تفتیش کی اور تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔

یہ رپورٹ سب سے پہلے امریکی اخبار 'دی نیویارک ٹائمز' میں شائع ہوئی اور اس کو ترتیب دینے والوں میں ہندوستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی بیٹی امرت سنگھ بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں پاکستان سے متعلق ایک باب میں یہ بھی کہا گیا کہ سی آئی اے آپریشنز سے جڑی فلائٹس کے لیے پاکستان نے اپنے ہوائی اڈے اور فضائی حدود بھی فراہم کیں۔

اقوام متحدہ کی 2010ء میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دسمبر 2001ء اور 2002ء کی گرمیوں کے دوران پاکستان نے ایک خفیہ حراستی پروگرام جاری رہا، جس کے تحت زیرِ حراست افراد کو افغانستان یا گوانتاناموبے منتقل کرنے سے قبل پاکستان میں رکھا جاتا تھا۔

سابق صدر پرویز مشرف تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے 672 مشتبہ القاعدہ کے ارکان کو پکڑا اور ان میں سے 369 کو امریکہ کے حوالہ کیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستانی حکام تقریباً ایک درجن کے قریب القاعدہ ارکان کی گرفتاری میں شامل ہونے کے علاوہ دوسرے درجنوں مشتبہ افراد کی ابتدائی حراست، تفتیش اور دورانِ تفتیش تشدد میں بھی ملوث رہے۔

رپورٹ میں مشتبہ افراد کو پکڑنے اور انہیں زیر حراست رکھنے میں پاکستان کے کردار پر ہیومن رائٹس واچ اور دوسرے ایسے اداروں سے حاصل کردہ معلومات بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے اپنے ہوائی اڈوں اور فضائی حدود کو سی آئی اے آپریشنز کے لیے استعمال ہونے کی اجازت دے رکھی تھی۔

رپورٹ نے امریکی عدالت کے ریکارڈز کے حوالے سے بتایا کہ 2003 میں پاکستان نے ایک نجی چارٹر کمپنی رچمور ایوی ایشن کو اپنے ہوائی اڈے اور فضائی حدود کے کم از کم ایک بار استعمال کی اجازت دی تھی۔

رچمور ایوی ایشن سی آئی اے کے غیر معمولی اور خفیہ حراستی پروگرام کے لیے فلائٹس فراہم کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سی آئی اے کے کہنے پر حراست میں لیے جانے والے افراد کو جن مراکز میں رکھا جاتا تھا ان میں آئی ایس آئی کا کراچی میں موجود حراستی مرکز بھی شامل تھا۔

اس مرکز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کو ابتدائی طور پر یہاں رکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے تفتیش بھی کی جاتی تھی۔

ان افراد کو بعد ازاں دوسری جیلوں میں منتقل کر دیا جاتا تھا۔

رپورٹ کہتی ہے کہ کراچی کا یہ مرکز آئی ایس آئی کے کنٹرول میں تھا لیکن یہاں پر زیرحراست رہنے والے افراد دعوی کرتے ہیں کہ امریکی اور برطانوی حکام ان سے تفتیش کرتے تھے۔

رپورٹ میں یہاں حراست میں رکھے جانے والے ایک شخص بنیام محمد کے حوالے سے بتایا گیا کہ 'انہیں یہاں ایک ہفتے تک ہتھکڑیوں میں لٹکا کر رکھا گیا تھا'۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سی آئی اے کے اس غیر معمولی اور خفیہ حراستی پروگرام میں پاکستانی حکام کے ملوث ہونے کی سرکاری سطح پر کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔

پاکستان کی عدالتوں میں لاپتہ افراد کے حوالے سے کئی درخواستیں دی گئیں تاہم ان میں سے زیادہ تر اس بنا پر مسترد کر دی گئی کہ پولیس اور عسکری اداروں نے مذکورہ افراد کو گرفتار یا حراست میں رکھنے کی تردید کر دی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025