• KHI: Asr 4:50pm Maghrib 6:28pm
  • LHR: Asr 4:12pm Maghrib 5:51pm
  • ISB: Asr 4:14pm Maghrib 5:54pm
  • KHI: Asr 4:50pm Maghrib 6:28pm
  • LHR: Asr 4:12pm Maghrib 5:51pm
  • ISB: Asr 4:14pm Maghrib 5:54pm

'ایران نے جدید آلات نصب کرنا شروع کردیے'

شائع February 22, 2013

۔۔۔۔فائل فوٹو
۔—فائل فوٹو

ویانا: ایک رپورٹ کے مطابق، ایران نے اپنے بڑے ایٹمی تنصیبات میں سے ایک پر جدید ترین آلات نصب کرنا شروع کردیئے ہیں۔

 ذرائع نے اقوام متحدہ کے ایٹمی ادارے 'انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی' (آئی اے ای اے) کی نئی رپورٹ کے حوالہ سے بتایا کہ چھ فروری کو ادارہ نے مشاہدہ کیا کہ ایران نے اپنے کئی ایٹمی پلانٹس میں سے ایک کے سینٹری فیوجز پر آئی آر ٹو ایم نامی جدید ترین آلات کی تنصیب شروع کی۔

اس کے علاوہ  ایران نے پہلی سینٹری فیوجز پر آئی آر ون سے بھی جدید آلات نصب کئے ہیں۔

خیال رہے کہ 26 فروری کو ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے ایٹمی معاملات پر مذاکرات ہوں گے۔  مغربی دنیا کا ماننا ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام سے جلد ایٹم بم تیار کر لے گا تاہم ایران نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد جاوید خاں غوری May 14, 2013 11:36am
تحریر: محمد جاوید خاں غوری عکاسی:محمد مہدی ٭ ایوب دور میں گھر کے خرچ کے لیے دو روپے ملتے تھے، ڈیڑھ روپے کا کھانا پکاتی اور آٹھ آنے بچالیتی تھی ٭بھائی کی کم آمدنی کی وجہ سے گزر بسر مشکل تھی لہذا چھٹپن ہی سے ان کا ہاتھ بٹانے کی ٹھان لی ’’ کام، کام اور کام‘‘ کے قول پر عمل کرنے والی 80 سالہ امینہ بی بی نو عمری سے لے کر اب تک محنت مزدوری میں لگی ہوئی ہیں۔امینہ بی بی کا گزشتہ 68برس سے یہ معمول ہے کہ وہ صبح 8 بجے اپنے گھر سے نکل کر صدر میں کٹرک روڈ کی فٹ پاتھ پر پہنچ جاتی ہیںاور مٹی سے بنے ہوئے برتن مثلاًصراحیاں ، مٹکے ، گملے، گُلک اورکونڈیلیاں وغیر ہ فرخت کرتی ہیں اور قریباً 10 سے 11 گھنٹے کام کرنے کے بعد واپس اپنے گھر کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں۔ سرد و گرم موسم، حالات کی اونچ نیچ سے ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گویا زندگی ایک خاص ڈگرپر چل رہی ہے۔ ہم نے اِن سے مختصر سی گفتگو کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا انہیں کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ ایک خاتون ہوتے ہوئے بھی انہوںنے اپنا بچپن ، جوانی اور اب بڑھاپا بھی اس مشقت کی نذر کردیا۔ جو اب ملاحظہ فرمایئے۔ بچپن ہی میں ماں باپ چل بسے، جب ہوش سنبھالا تو بڑے بھائی کو والدین کی جگہ پایا لیکن ماں باپ کانعم البدل کوئی نہیں ہوسکتا حالا ںکہ میرے بھائی میرا بہت خیال رکھتے تھے اور محنت مزدوری کرکے گھر کی گاڑی کو دھکا لگاتے تھے۔ آمدنی کم تھی اس لیے گزر بسر مشکل تھی لہٰذا میںنے چھٹپن (بچپن) ہی میں ان کا ہاتھ بٹانے کی ٹھان لی۔ چوں کہ ہماری رہائش کمہارواڑے کے علاقے میں تھی جہاں مٹی کے برتن بنانے کا کام وسیع پیمانے پر ہوتا تھا اور یہاں کے بنے ہوئے برتن کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر میں سپلائی ہوتے تھے جب کہ وہاں مزدوری کے مواقعے بھی تھے ۔اس لیے میں نے یہ ہی کام سیکھنے کی ٹھان لی اور کچھ عرصے بعد اس کام سے تھوڑا بہت کمانا بھی شروع کردیا۔ وہ کہتے ہیں نہ! گاتے گاتے آدمی گوّیا بن ہی جاتا ہے، تھوڑے ہی عرصے بعد میں برتن بنانا اور پکانا سیکھ گئی لیکن بارشوں کے موسم میں یہ کام بند ہو جاتا ہے اس دوران میں گھر گھر جاکر کپڑے، برتن دھوتی، جھاڑو ،پونچھا کرتی اور کبھی کبھی پانی کے بھاری بھاری مٹکے اٹھاکر لوگوں کے گھروںتک پہنچاتی تاکہ آمدنی کا تسلسل بر قرار رہے ،چاہیے وہ قلیل ہی کیوں نہ ہو۔ کم اجرت ملنے کی وجہ سے لوگ اس کام کو خیر باد کہہ کر دوسرے کاروبار میں لگ گئے اور ان مٹی کے برتنوں کی جگہ پلاسٹک کے برتنوں نے لے لی ہے۔ اس کام کا اگر یہی حال رہا تو آئندہ چند برسوں میں یہ کام ختم ہو جائے گا۔ خیر… کام کاج کرتے کرتے زندگی کی گاڑی نے کب جوانی کی شاہ راہ پر قدم رکھا پتا ہی نہیں چلا۔ یہ سوچ کر کام کرتی رہی کہ شادی کے بعد زندگی آرام سے گزارے گی کیوںکہ جس شخص سے میری شادی ہورہی تھی، اس کا بدین سے آگے منگریو میں چائے کا ہوٹل تھا۔ بس اسی سوچ سے میرے خوابوں کی دنیامیں رنگین پھول کِھلنے لگے۔ مجھے صحیح تاریخ اور سَن تو معلوم نہیں مگر ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ ایوب کے دور میں میری شادی ہوئی اورمیں لیاری سے منگریو جا بسی۔ ابھی شادی کو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میرے شوہر کو کاروبار میں بھاری نقصان ہُوا اور ہم پائی پائی کو محتاج ہوگئے، اُس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس کے پاس جاکر پریشانی بیان کروں۔ منگریومیں کوئی ایسا کام بھی نہیں تھاجہاں گھر گھر جاکر جھاڑو، پونچھا کرتی، یا بھٹی میں مٹکوں کی پکائی کرتی۔ آخر کار میںنے اور شوہر نے فیصلہ کیا کہ کراچی جاکر محنت مزدوری کرکے ازسرِ نو اپنی زندگی شروع کرتے ہیں۔ یہاں آکر میںنے دوبارہ اپنا پرانا کام شروع کردیا۔ شوہر زیرِ تعمیر بلڈنگ میں مزدوری کرتا اور میں بھٹی پرکام کرتی۔ اس طرح ہم نے کچھ پیسے جمع کیے اور ایک ٹھیلا خریدا، جس پر میرا شوہر مٹی کے برتن گلی گلی بیچا کرتا تھا۔ پھر میںنے بھٹّی سے نکل کر صدر کے علاقے رینبو سینٹر کے برابر والی فٹ پاتھ پر برتن رکھ کربیچنا شروع کردیئے۔ اس کام میں اُس وقت بھی کوئی اچھی کمائی نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے شوہر کو دوبارہ مزدوری پر لگایا اور خود برتن بیچنے لگی۔ ایوب خان کے دورمیںشوہر کو 20 روپے مزدوری ملتی تھی، جس میں سے وہ مجھے2 روپے گھر میں خرچ کے لیے دیتے باقی پیسے جمع کرتے۔ اس دو روپے میں سے بھی ڈیڑھ روپے کا کھانا پکاتی اور آٹھ آنے (پچاس پیسے) جمع کرتی، اس طرح ایک ایک پیسہ جمع کرکے لیاری میں ایک چھوٹا سے مکان لینے میں کام یاب ہوئے۔مکان خریدنے کے کچھ ہی مہینے بعد اللہ نے میری گود اولاد کی نعمت سے بھر دی اور میرے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام سکندر ہے اور میرے اس کام میں برابر کا شریک ہے آپ کو پتا ہے کہ کوئی بھی کاروبار ایک آدمی کے بس کا نہیںہوتا۔ پہلے میرے شوہر مزدوری کے بعد ساتھ دیتے تھے اور اب میرا بیٹا دیتا ہے، بہو بھی بہت خیال رکھتی ہے ۔اس عمر میں ایک بوڑھیا کو اور کیا چاہیے۔ جن دنوںبے نظیر شہید ہوئی تو میں اور شوہر حج کی ادائیگی کے لیے مکّہ مکرمہ میں تھے۔ حج کے بعدکچھ مہینے خیریت سے گزرے ہی تھے کہ میرے شوہر بستر سے لگ گئے۔ انھیں سانس کی بیماری تھی۔ دنیا بھر کا علاج کروایا، اسپتالوں کے چکرپہ چکر لگ رہے تھے اس ہی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت مت پوچھو مجھ پہ کیا گزری۔ جس کے شانہ بہ شانہ مل کر ایک چھوٹا سا آشیانہ بنایا وہ ہی چل بسا۔شوہر تو نہیں رہا مگر جب تک مجھ میں دم ہے یہ کام کرتی رہوں گی۔ بچے بہت کہتے ہیں کہ اماں اب بس کرو گھر میں بیٹھو آرام کرو۔ میںبچوں سے یہ کہتی ہوں کہ اگر اب میںنے آرام کیا تو میں بیمار پڑ جائو گی اور پورے گھر کومیری دوا دارو کرنی پڑے گی۔ کام نا چھوڑنے کی ایک وجہ میں یہ بھی ہے کہ میں نوعمری ہی سے محنت کرتی آئی ہوں اور اللہ کامجھ پر بڑا کرم ہے کہ اس عمر میں بھی مجھے کوئی بیماری نہیں۔ میری یہ خواہش کہ اللہ مجھے کسی کا محتاج نہ کرے اور بس چلتے ہاتھ پیر اپنے خالق ِحقیقی سے جاملوں۔�

کارٹون

کارٹون : 18 فروری 2025
کارٹون : 17 فروری 2025