973missing_balochistan_APP 670
جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ —. فوٹو اے پی پی

پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملات کی چھان بین کے لیے قائم کمیشن کے سربراہ اور سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ دو برس کے دوران مزید آٹھ سو اکسٹھ افراد کے لاپتہ ہونے کے مزید نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔

ان نئے کیسز کے سامنے آنے کے بعد لاپتہ افراد کی کل تعداد نوسو ننانوے  ہوچکی ہے۔

بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق، جبری طور پر لاپتہ افراد کے نئے کیسز یکم فروی دو ہزار گیارہ سے اٹھائیس فروری دو ہزار تیرہ کے درمیان  سامنے آئے۔

اس سے قبل یکم جنوری دو ہزار گیارہ تک مذکورہ کمیشن کے پاس ایسے ایک سو اڑتیس کیسز رجسٹرڈ تھے۔

کمیشن نے کل نو سو ننانوے کیسز میں سے تین سو اٹھہتر کیسز کو نمٹا دیا ہے اور اس وقت چھ سو اکیس کیسز کے بارے میں تحقیقات چل رہی  ہیں۔

لاپتہ افراد کو تلاش کرنے کے حوالے سے  مذکورہ کمیشن کو سیکیورٹی اداروں کی مدد بھی حاصل ہے اور اب تک اس  نے فروری دوہزار تیرہ میں ہی اُنیس لاپتہ افراد کو تلاش کرلیا تھا،  جن میں سے دو افراد کی لاشیں ہی مل سکیں۔

اعداد و شمار کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے پانچ سالہ دورِحکومت میں لاپتہ افراد کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

جبری طور پر لاپتہ افراد کا معاملہ پاکستان میں اب نیا نہیں رہا۔  جہاں حقوق انسانی کی مختلف بین الاقوامی تنظیمیں اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتی آئی ہیں، وہیں ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اس مسئلے پر اکثر آواز بلند کی جاتی ہے۔

آئے دن ایسے لاپتہ افراد کے رشتہ دار اپنے عزیزوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں اور عموماً سب ہی کی طرف سے سیکیورٹی اداروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

جبری طور پر لاپتہ افراد کے کیسز کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک وفد نے بھی پاکستان کا دس روزہ دورہ کیا تھا  تاکہ اس ضمن میں تفصیلات جمع کرسکے۔

اس وفد کے ارکان نے حکومت اور عدلیہ پر زور دیا تھا کہ وہ لاپتہ افراد کے کیسز پر توجہ دے۔

سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے اس سال جنوری کے مہینے میں پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا گیا تھا  کہ حکومتی اداروں کے پاس  سات سو کے افراد مبینہ طور پر شدت پسند قرار دے کر بغیر کسی قانونی کارروائی کے زیرِحراست ہیں۔

یہ حالیہ بیان اس دوران جاری کیا گیا ہےجبکہ کراچی میں لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی لاشیں ملنے کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو مہینوں میں ایسے سات بلوچ نوجوانوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بلوچستان کے بعض علاقوں اور پشاور سے بھی لاپتہ افراد کی لاشیں مل چکی ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی ایک تنظیم جو بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے لیے کام کرری ہے، اس معاملے پر قائم حکومتی کمیشن پر اپنےعدم اعتماد کا اظہار کر تی رہی ہے۔

گزشتہ سال جون کے دوران مذکورہ  عدالتی کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر)جاوید اقبال نے کوئٹہ میں دیئے گئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ لاپتہ افراد کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔

ان کا خیال تھا کہ چار سے چھ ماہ میں اس مسئلے کو حل کر لیا جائےگا۔

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے انسانی حقوق مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ابھی صرف کمیشن کو درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور ان درخواستوں کی جانچ پڑتال کرنا باقی ہے کہ ان میں جبری گمشدگیوں کے الزامات درست ہیں کہ نہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں