صوابی کے قبرستان سے آسٹریلیا کے میدانوں تک
صوابی: پاکستان کے فواد احمد نے اپنا کرکٹ کا سفر صوابی کے قریب ایک گاؤں کے قبرستان سے شروع کیا۔
اوراب اس سفر کو عروج کرکٹ کے آبائی گھر لارڈز میں انگلینڈ کے خلاف ایشینز سیریز میں آسٹریلیا کی نمائندگی کی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے۔
اکتیس سالہ فواد کو مبینہ طور پر دہشت گردوں کی جانب خطرات لاحق تھے، جس کے پیش نظر وہ 2010ء میں آسٹریلیا چلے گئے اور اب وہ اپنے نئے وطن آسٹریلیا کی جانب سے ایشیز کھیلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
فواد کے دوستوں اور صوابی میں ان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی بے پناہ صلاحتیوں کے مالک تھے، تاہم انہیں پاکستان کی جانب سے کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا۔
صوابی سے تعلق رکھنے والے پینتیس سالہ سید قمر، جو فواد کے کپتان بھی رہ چکے ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا کہ فواد شروع ہی سے میچ ونر کھلاڑی تھے۔ ان کا بیٹنگ اسٹائل نرالا تھا اور انہیں لیگ سپن باؤلنگ کے تمام گُر آتے تھے۔
'وہ بہت باصلاحیت باؤلر تھے، دراز قد ہونے کی وجہ سے انہیں اضافی فائدہ حاصل تھا، وہ با اسانی لیگ بریک، فلپر اور گگلی کر سکتے تھے، قمر'۔فواد آسٹریلیا آنے سے پہلے پاکستان میں کئی فرسٹ کلاس میچز کھیل چکے ہیں۔ 2005ء میں ایبٹ آباد کی جانب سے کھیلتے ہوئے پہلے ہی میچ میں انہوں نے وکٹ حاصل کی تھی۔
قمر کے مطابق، فواد کا خیال تھا کہ صوابی جیسے چھوٹے علاقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان کے قومی ٹیم میں شامل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔
اے ایف پی کے رابطہ کرنے پر فواد کے خاندان نے ان کے بارے میں اور انہیں دہشت گردوں سے لاحق خطرات کے حوالے سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان میں کرکٹروں کو درپیش خطرات یا پھر مقامی میچوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کے حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد تو نہیں ملے تاہم فواد کے خاندان کے ایک دوست محمد اصغر کا اصرار ہے یہ خطرے حقیقی نوعیت کے تھے۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں سے نامور کھلاڑی سامنے نہیں آئے۔ پاکستان کے مایہ ناز آل راؤنڈر شاہد آفریدی کا تعلق خیبر کے قبائلی علاقے اور تیز باؤلر عمر گل پشاور سے تعلق رکھتے ہیں۔
احمد کے ساتھ کھیلتے رہنے والے اڑتیس سالہ مقصود علی کہتے ہیں کہ 'فواد ہمیشہ ہی پختہ عزم کے ساتھ کھیلتے تھے'۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ باؤلرز وکٹ حاصل کرنے کے بعد جذباتی انداز میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں اس کے برعکس فواد وکٹ لینے کے بعد بھی خاموش اور نارمل رہتے تھے۔
'کرکٹ ان کا جنون تھا۔ جب انہیں قومی ٹیم کے لیے منتخب نہیں کیا گیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ وہ ہر قیمت میں عالمی کرکٹ ضرور کھیلیں گے'۔
خیال رہے کہ فواد کو نومبر میں آسٹریلیا میں مستقل رہائش کا ویزہ جاری کر دیا گیا ہے، جس کے بعد انہوں نے فوراً ہی بیگ بیش ٹی ٹوئنٹی لیگ میں میلبورن رینیگیڈز کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا نام بھی بنایا۔
آسٹریلوی قوانین کے تحت فواد قومی ٹیم میں اسی وقت منتخب ہو سکتے ہیں جب انہیں شہریت مل جائے۔کرکٹ سے متعلق 'کرک انفو' نامی ویب سائٹ کی ایک خبر کے مطابق، کرکٹ آسٹریلیا ان دنوں فواد کی شہریت کے لیے لابنگ کر رہی ہے تاکہ جولائی میں ایشیز سیریز سے قبل جلد از جلد انہیں یہ درجہ مل جائے۔
اگر انہیں بروقت شہریت مل گئی تو ان کے آسٹریلیا کی نمائندگی کرنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
یہ فواد کے لیے ایک خواب سے کم نہیں ہو گا، کیونکہ صوابی سے آٹھ کلومیٹر دور مرغوز نامی گاؤں میں کھیلنے والا لڑکا کرکٹ کے آبائی گھر لارڈز میں کھیل سکے گا۔
مرغوزمیں سرکاری سکول کے استاد شیر بہادر کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں کرکٹ کا کوئی میدان نہیں، مقامی لوگوں نے گاؤں کے قبرستان کے لیے ایک پلاٹ مختص کر رکھا ہے اور اسی پلاٹ کے ایک حصے میں فواد کرکٹ کھیلتے تھے۔
بہادر کے مطابق، فواد خاموش طبع، شائستہ اور سنجیدہ مزاج کے حامل تھے۔' پڑھائی میں زیادہ تیز نہیں تھے اور ان کی پوری توجہ کرکٹ پر مرکوز رہتی تھی'۔
وہ اسکول کی کرکٹ ٹیم سے کھیلتے تھے اور اسکول میں پانچ سال تک زیر تعلیم رہنے کے دوران ان کا کبھی کسی طالب علم سے جھگڑا نہیں ہوا۔
'اُن کی مکمل توجہ کرکٹ پر تھی اور ان کے ذہن میں تھا کہ وہ مستقبل میں اچھے کھلاڑی بنیں گے'۔













لائیو ٹی وی