national-assembly-parliament-members-app-670
وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کا اراکین قومی اسمبلی کے ہمراہ ایک الوداعی گروپ فوٹو۔ —.فوٹو اے پی پی

اسلام آباد: آئین کے آرٹیکل باون کے تحت آج رات گیارہ بجکر اُنسٹھ منٹ اور اُنسٹھ سیکنڈ پر قومی اسمبلی اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد تحلیل ہوجائے گی ۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کا انعقاد سترہ مارچ 2008ء کو ہوا تھا، چنانچہ اس اسمبلی کی  پانچ سالہ مدت کا اختتام سولہ اور سترہ مارچ کے درمیان رات کے وقت ہوجائے گا۔

وفاقی حکومت نے کل ہفتہ کے روز کی ہفت وار چھٹی منسوخ کردی ہے تاکہ وزراء اپنی وزارتوں کے عملے سے الوداعی ملاقات کرسکیں۔

اسی حوالے سے وزیراعظم سیکریٹیریٹ کے میڈیا سیل نے جمعہ کو اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ہفتے کی شام کو قوم سے خطاب کریں گے۔

یاد رہے کہ یہ منتخب عوامی نمائندوں پر مشتمل پاکستانی تاریخ میں پہلی قومی اسمبلی ہے جو اپنی آئینی مدت اقتدار مکمل کر رہی ہے۔ اس سے قبل پرویز مشرف کے دور میں قومی اسمبلی نے بھی اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی تھی۔ لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اُس اسمبلی کو  دنیا کے اس پہلے ایوان کا اعزاز بھی حاصل ہوا جس نے ایک فوجی آمر کو بطور صدر کو ایک نہیں دو مرتبہ اور تین مرتبہ اس کے حمایت یافتہ افراد کو ملک کا وزیراعظم منتخب کیا تھا۔

سول سوسائٹی کی بیالیس مختلف تنظیموں کے اشتراک سے قائم کی گئی تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (FAFEN) کی جانب سے ایوان زیریں کی پانچ سالہ کارکردگی کے حوالے سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں ایک مکمل جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

 جس کے مطابق پانچ سال دوران قومی اسمبلی پچاس باقاعدہ سیشن میں ایک سو چونتیس بل منظور کیے گئے، جن میں اٹھارہ رکن اسمبلی کے پرائیویٹ بل بھی شامل ہیں۔

فافین کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی نے اپنے قانون سازی ایجنڈے کے ذریعے ملک میں گورننس کے ڈھانچے کو تبدیل کیا، چنانچہ اس کی بدولت صوبائی خودمختاری کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ 1973ء کے آئین کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کر دیا گیا۔

قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کے دوران خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے پیشرفت دیکھی گئی اور پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی نے ایک خاتون کو اپنا اسپیکر منتخب کیا، جبکہ یہ بھی ایک تاریخی ریکارڈ ہے کہ صدر مملکت نے پانچوں سالوں میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں سے خطاب کیا۔

قومی اسمبلی جو آج رات کے بعد سابقہ کہلائے گی، نے مسلمہ پارلیمانی روایات پر عمل کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا۔

قومی اسمبلی کے اننچاسویں اجلاس میں طریقہ کار سے متعلق قوانین میں تاریخی تبدیلیاں سامنے آئیں، جن کے تحت وزارتوں کی طرف سے پیش کی جانے والی بجٹ تجاویز کو وفاقی بجٹ میں شامل کرنے سے پہلے قائمہ کمیٹیوں کو ان کی جانچ پڑتال کی اجازت دی گئی۔

گزشتہ سال سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کے مقدمہ میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد پانچویں پارلیمانی سال میں اراکین قومی اسمبلی نے ایک نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا۔

اسی طرح پانچویں پارلیمانی سال میں ہی گیارہ  ارکان قومی اسمبلی نے دُہری شہریت کے کے قانون کے پیش نظر استعفے دیے۔

اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کے دوران ایوان زیریں کے پانچ ارکان کا انتقال ہوا، جن میں اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی بھی شامل ہیں، جنہیں اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی کے پچاس باقاعدہ سیشنوں میں قومی اسمبلی کے پانچ سو اکیس اجلاس منعقد ہوئے، جن میں سے سو اجلاس پہلے سیشن میں، ایک سو سات دوسرے، ایک سو آٹھ تیسرے، ایک سو چھ چوتھے اور سو اجلاس پانچویں پارلیمانی سال میں منعقد ہوئے۔

قانون سازی:

پانچ پارلیمانی سالوں کے دوران قومی اسمبلی نے ایک سو چونتیس بلوں کی منظوری دی، جن میں ایک سو سولہ حکومتی اوراراکین اسمبلی کےاٹھارہ نجی بل بھی شامل تھے۔

ان ایک سو چونتیس بلوں میں سے اکیاسی بل منظوری کے بعد قوانین کا درجہ اختیار کر گئے۔

اگرچہ قومی اسمبلی نے پہلے پارلیمانی سال میں صرف پانچ بل منظور کیے تھے، لیکن اس کے بعد کے سالوں میں قانون سازی کی رفتار تیز ہوتی گئی۔

قومی اسمبلی نے اپنی مدت کے دوسرے سال میں بتیس، تیسرے سال میں اکتیس، چوتھے سال میں انتیس اور پانچویں سال میں سینتیس بلوں کی منظوری دی۔

منظور کیے جانے والے کل حکومتی بلوں میں سے چھپن کے ذریعے موجودہ قوانین میں ترامیم کی گئیں، جبکہ باقی بل نئے قوانین کے بل تھے۔

یاد رہے کہ ان میں اٹھارہویں اور بیسویں آئینی ترمیم کے بل بھی شامل ہیں، جن کی بدولت 1973ء کے آئین کی بحالی میں مدد مل سکی، صوبائی خودمختاری کو یقینی بنایا گیا، اقتدار کی جمہوری انداز میں سویلین حکومت کو منتقلی کا اتفاق رائے پر مبنی نظام وضع کیا گیا اور مکمل پانچ ارکان پر مشتمل الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل ممکن ہوسکی۔

تاہم دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق چار بلوں کوپانچویں پارلیمانی سال کے آخری تین سیشنوں میں جا کر منظوری حاصل ہوسکی ۔

اسی طرح حکومت کی طرف سے اکتوبر 2012ء میں قومی احتساب ایکٹ قومی اسمبلی میں متعارف کروایا گیا،مگر اس کو منظوری نہیں مل سکی۔

تیرہویں قومی اسمبلی کو اس لحاظ سے ایک مثالی حیثیت دی جانی چاہئیے کہ اس نے خواتین کے حق میں قانون سازی کی۔ گھریلو تشدد، کام کرنے کی جگہ اور عوامی مقامات پر ہراساں کرنے، خواتین مخالف مروجہ طریقوں اور خواتین کمیشن کا درجہ بلند کرنے سے متعلق حکومتی اور نجی ارکان کے بلوں کی منظوری دی۔

ماضی کی اسمبلیوں کے برعکس اس قومی اسمبلی میں ارکان کے نجی بلوں کی منظوری کا بھی صحت مندانہ رجحان دیکھنے میں آیا۔  ارکان اسمبلی کی جانب سے ایوان میں کل ایک سو نواسی نجی بل پیش کیے گئے، جن میں سے ایک سو پینتیس کے ذریعے موجودہ قوانین میں ترامیم کی کوشش کی گئی۔ ان میں سے 18 بل منظور کرلیے گئے۔

بجٹ:

پانچ پارلیمانی سالوں کے بیاسی نشستوں کے دوران ملکی بجٹ پر بحث کی گئی۔ پہلے پارلیمانی سال میں ان نشستوں کی تعداد انیس،  دوسرے میں چودہ، تیسرے میں بائیس، چوتھے میں سترہ اور پانچویں پارلیمانی سال میں دس رہی۔ اوسطاً ہر پارلیمانی سال میں سولہ نشستوں میں بجٹ پر بحث کی گئی۔

قراردادیں:

پانچ سالوں کے دوران ایوان زیریں میں پیش کی گئی کل دو سو تینتالیس قراردادوں میں سے پچاسی کی منظوری دی گئی۔ خواتین کے حقوق پر چھ اور اقلیتوں اور توہین رسالت پر پانچ پانچ قراردادیں منظوری کی گئی۔

اسی طرح متعدد مختلف امور مثلاً بلوچستان، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، بچوں کے حقوق، پولیو کارکنوں اور صحافیوں کے قتل، جمہوریت، ملالہ یوسف زئی پر حملے، دہشت گردی، انسانی حقوق، سوات کی صورتحال، سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملے، ٹارگٹ کلنگ، لاپتہ افراد، اسامہ بن لادن کی موت، نئے صوبوں کے قیام، روزگار، اور کیبل ٹی وی پر فحاشی کے حوالے سے قومی نے قراردادوں کی منظوری دی۔

وقفہ سوالات:

پانچ پارلیمانی سالوں کے دوران دوسو سولہ ارکان اسمبلی نے ایوان میں سولہ ہزار چھپن سوالات اُٹھائے، چنانچہ ہر سال اوسطاً تین ہزار دو سو گیارہ سوالات اٹھائے گئے۔ حکومت نے بارہ ہزار چھ سو تیئس سوالوں کا مکمل جواب دیا، تین ہزار تین سو ستاون نظرانداز کر دئیے گئے، اڑسٹھ پر جزوی جواب دیا گیا، چھ سوالات واپس لے لیے گئے اور دو سوالات زائد المیعاد ہو گئے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے اراکین کی جانب سے سب سے زیادہ  یعنی نو ہزار نو سو تین سوالات اٹھائے، جو کل سوالات کا باسٹھ فیصد بنتے ہیں۔

مسلم لیگ نون کی بیس خواتین اراکین اسمبلی اس حوالے سے خاصی فعال رہیں، جنہوں نے پانچ ہزار تین سو سینتالیس سوالات پیش کیے اور یوں فی خاتون رکن اوسط سوالات کا تناسب دو سو سڑسٹھ  رہا۔

مجموعی طور پر آٹھ ہزار ایک سو اڑتیس سوالات پچپن خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے پیش کیے گئے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں پانچ سالوں کے دوران ایک سو اکسٹھ مرد ارکان کی طرف سے سات ہزار نو سو اٹھارہ سوالات پیش کیے گئے۔

مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین اراکین اسمبلی نے نگرانی کا کرداربھرپور طریقے سے ادا کیا اور کل سوالات میں سے تقریباً اڑتالیس فیصد سوالات جمع کرائے۔

توجہ دلاؤ نوٹس:

پارلیمانی مدت کے پانچ سالوں کے دوران ارکان اسمبلی نے فوری عوامی اہمیت کے کئی امور پر ایوان کی توجہ مبذول کرائی اور پہلے سال میں ایک سو نو، دوسرے میں ایک سو آٹھ، تیسرے میں ایک سو بیس، چوتھے میں ایک سو بائیس اور پانچویں سال میں چوراسی توجہ دلاؤ نوٹس اسمبلی میں پیش کیے۔

اس نوعیت کے پانچ سو تینتالیس نوٹس میں سے ایوان نے چار سو چالیس پر بحث کی۔

ممبران کی شمولیت:

گزشتہ پانچ سالوں کے دوران تیئس اراکین اسمبلی، جن میں پانچ خواتین اور اٹھارہ مرد ارکان شامل تھے، نے کسی پارلیمانی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ ان میں سے آٹھ ارکان کا تعلق پیپلز پارٹی، آٹھ کا  مسلم لیگ قاف، دو کا مسلم لیگ نون، دو کا عوامی نیشنل پارٹی اور ایک ایک رکن کا تعلق مسلم لیگ فنکشنل اور نیشنل پیپلز پارٹی سے تھا جبکہ نہ بولنے والے ان ارکان میں ایک آزاد رکن بھی شامل ہیں۔

نکتۂ اعتراض:

پانچ پارلیمانی سالوں کے دوران کل تین سو گیارہ ارکان اسمبلی نے پانچ ہزار ننانوے نکتۂ اعتراض کے ذریعے متعدد انتخابی حلقوں کے مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی امور پر بھی بات کی۔

تاہم اسپیکر کی طرف سے کسی ایک بھی نکتۂ اعتراض پر کوئی رسمی حکم نہیں دیا گیا۔

واضح رہے کہ فافین نے 2008ء میں قومی اسمبلی کی کارروائی کا براہ راست مشاہدہ کرنا شروع کیا، جس کے لیے پارلیمانی کارروائی کے ضوابط پر مبنی طریقہ کار اختیار کیا گیا۔

سال 2011ء میں ان سرگرمیوں کا دائرہ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی کارروائی تک وسیع کر دیا گیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Aamir hussaini Mar 16, 2013 04:34pm
DawnUrdu should also analyse relation between Civilian GOvernment and Military establishment during five years.