منور حسن جماعتِ اسلامی (جے آئی) کے سربراہ ہیں۔ یہ جماعت میں سب سے سینئر منصب ہے۔ وہ سن دو ہزار نو میں، جماعت کے اندر ہونے والے داخلی انتخابات کے نتیجے میں جمہوری طور پر منتخب ہوئے تھے۔

سوانح

سن اُنیّسو اکتالیس میں، نئی دہلی میں جنم لینے والے منور حسن تقسیمِ ہِند کے وقت اپنے خاندان والوں کے ہمراہ پاکستان آگئے تھے۔

انہوں نے جامعہ کراچی سے ماسٹرز کی دو ڈگریاں حاصل کی ہیں: سوشیالوجی اور اسلامی تعلیمات۔

اب مولانا مودودی کے نظریات پر سختی سے کاربند جماعتِ اسلامی کے سربراہ منور حسن سیاسی جنم کے لحاظ سے مختلف نظریے کے حامل تھے۔

جماعتِ اسلامی کے سربراہ جامعہ کراچی کے زمانہ طالب علمی میں مارکسی نظریات کی حامل طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایس ایس ایف) کے سرگرم کارکن تھے۔

این ایس ایف کے سرگرم کارکن منور حسن کے نظریات میں انقلابی تبدیلی کی حقیقت نہایت دلچسپ ہے۔

انہیں جماعتِ اسلامی کی طلبہ تنظیم، اسلامی جمیعتِ طلبہ سے تعلق رکھنے والے ایک نظریاتی کارکن کو توڑ کر اپنی طرف لانے کی ذمہ داری سونپی گئی، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔

منور حسن ان کے نظریات سے اتنے متاثر ہوئے کہ جمیعت میں ہی شمولیت اختیار کرلی اور اب یہ تاریخ کا حصہ ہے۔

سیاسی کریئر

متعدد کا خیال ہے کہ منور حسن اپنی جماعت کے نظریاتی اصولوں پر سختی سے کاربند امیر ہیں۔ وہ تین سال تک اسلامی جمیعتِ طلبہ کے ناظمِ اعلیٰ بھی رہے۔

انہوں نے جماعت کے تحت چلنے والی ایک اکیڈمی سے اپنے نظریات کی آبیاری کی، ساتھ ہی وہ اپنی جماعت کے داخلی امور میں بھی شامل رہے جسے پارلیمانی سیاست کا نہایت کم تجربہ تھا۔

سن اُنیّسو سڑسٹھ میں انہوں نے اسلامی جمیعت طلبہ سے جماعتِ اسلامی میں شمولیت اختیار کرلی۔

منور حسن نے اپنی جماعت کے اندر کئی اہم اور سینئر عہدوں پر بھی خدمات انجام دی ہیں۔

وہ جماعت کے امیرِ کراچی رہے، اس کے علاوہ مرکزی شوریٰ اور مجلسِ عاملہ کے بھی رکن رہے۔

مارچ اُنیّسو ستتر کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی کے بھی وہ مختصر مدت کے لیے رکن رہے۔ اس اسمبلی کا خاتمہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے نتیجے میں ہوا۔

جماعت سے وابستگی کی جھلک ان کی عائلی زندگی میں بھی نظر آتی ہے۔ ان کی شادی جماعتِ اسلامی شعبہ خواتین کی جنرل سیکریٹری عائشہ منور سے ہوئی تھی۔

بطور ایم این اے انہوں نے کسی بھی انفرادی امیدوار کے مقابلے میں، ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔

جماعتِ اسلامی کے اہم اور سینئر عہدوں پر مختلف خدمات انجام دینے کے بعد انہیں سن دو ہزار نو میں جماعت کا مرکزی امیر منتخب کیا گیا۔

قابلِ احترام شخصیت اور معروف دانشور نے جماعت کے اندر منعقدہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی۔

ان کے مقابلے میں، پارٹی کے دیگر دو سینئر رہنما لیاقت بلوچ اور سراج الحق تھے۔

منور حسن کے دورِ امارت میں جماعتِ اسلامی اس لیے پارلیمانی سیاست کا حصہ نہ رہی، کیونکہ سن دو ہزار آٹھ کے انتخابات کا وہ بائیکاٹ کرچکے تھے۔

جماعتِ اسلامی مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) کی اہم قوت تھی تاہم سن دو ہزار بارہ میں جب ایم ایم اے کو ایک بار پھر فعال کرنے کا اعلان ہوا تو اس نے اتحاد سے علیحدہ رہنے کو ترجیح دی۔

ایم ایم اے میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کی سب سے اہم وجہ ان کے جمیعت علمائے اسلام ۔ ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ  کشیدہ تعلقات بتائی جاتی ہے۔

منور حسن دائیں بازو کی حامل مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد دفاعِ پاکستان کے جلسے جلوسوں میں بھی نہایت سرگرمی اور بھرپور قوت سے شرکت کرتے رہے ہیں۔

وہ لاہور میں جماعت کے صدر مقام منصورہ کی جامع مسجد میں ہفتہ وار خطبہ دیتے ہیں۔

سیاسی موقف

جماعتِ اسلامی امریکا کی نہایت کٹر مخالف جماعت ہے اور منور حسن عوامی سطح پر اس کا اظہار کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔

سن دو ہزار دو میں سکریٹری جنرل جماعتِ اسلامی کی حیثیت سے منور حسن کا کہنا تھا 'امریکی قاتل ہیں، یہ قصائی ہیں'۔

سن دو ہزار دو کے انتخابات میں ایم ایم اے کی فتح پر، اس کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے ان کا موقف تھا کہ اتحاد کی بڑی جماعت کی حیثیت سے وہ امریکا کی 'دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی شدید مخالفت کرتے ہیں'۔

بعد میں امیر جماعتِ اسلامی کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری بلیک واٹر کے نام سے جانی جانے والی امریکی تنظیم پر عائد کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمان ملک پر اس کی مدد کا الزام بھی عائد کیا۔

امیر کی حیثیت سے ان کا کہنا تھا کہ جماعتِ اسلامی جمہوریت کی حامی ہے لیکن وہ 'مغرب' کے سیاسی نظام کی حمایت نہیں کرتی۔

فروری سن دو ہزار بارہ میں کوئٹہ کے المناک سانحہ کی ذمہ داری انہوں نے 'امریکا حامی پالیسیوں' پرعائد کیا۔

وہ کشمیر پر پاکستانی پالیسی کے سخت ناقد ہیں، چاہے یہ بات چیت دو طرفہ تجارت پر ہوں یا بس سروس روکنے کا معاملہ ہو، ان کا موقف ہے کہ ہندوستان کے ساتھ مذاکرات میں کشمیر کا مسئلہ ایک طرف کر دیا گیا ہے۔

منور حسن طالبان کے ساتھ بھی مذاکرات کے بھی سخت حامی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں ہونے والی عسکریت پسندی اور لاقانونیت کے ذمہ دار صرف بیس فیصد طالبان ہیں۔

عافیہ صدیقی کی سزا، ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی بحالی پر بھی منور حسن کھل کر نہایت سخت لب و لہجے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔

جماعتِ اسلامی کے رہنما خطوط کی روشنی میں بطور امیر جماعت وہ پاکستان میں اسلامی انقلاب لانے کی کھلی حمایت کرتے ہیں۔

حال میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آنے والے عام انتخابات میں پاکستان کے جوہری سائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیر کی جماعت تحریکِ  تحفظِ پاکستان کے ساتھ مل کر حصہ لیں گے۔

تحقیق و تحریر: حبا اسلام

انگریزی سے اُردو ترجمہ: مختار آزاد

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں