• KHI: Clear 25.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.7°C
  • KHI: Clear 25.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.7°C

توقف کا کوئی لمحہ نہیں

شائع June 29, 2012

صدر زرداری۔ رائٹر فوٹو

وہ لوگ جو عدلیہ اور پیپلز پارٹی کے زیر انتظام چلنے والی وفاقی حکومت کے درمیان محاذآرائی میں کچھ توقف کی امید کر رہے تھے، ان کے لئے بدھ کے روز مزید بری خبر سامنے آئی۔ لاہور میں ہائی کورٹ نے صدر مملکت کو پانچ ستمبر تک کی مہلت دے دی جس سے پہلے انکو تمام سیاسی سرگرمیاں اس وقت تک تلف کرنی پڑینگی جب تک وہ ایوان صدر میں براجمان ہیں۔ بصورت دیگر، عدالت کی طرف سے منفی حکم آنے کا اندیشہ ہے۔

دریں اثناء، اسلام آباد میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو عدالت کے دسمبر دوہزارنو این آراو فیصلے پر اپنا موقف پیش کرنے کیلئے بارہ جولائی تک کی مہلت دی ہے۔ یہ وہی فیصلہ ہے جو یوسف رضا گیلانی کے بطور وزیراعظم خاتمے کا باعث اس وقت بنا تھا جب انہوں نے نام نہاد سوئس خط لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔

اگر ایک لمحے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ اقدامات کے پیچھے موجود قانونی توجہیہ کو ایک طرف کر دیا جائے تو یہ نظریہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے کہ جیسے اعلیٰ عدلیہ اپنی تمام تر توجہ کیساتھ حکومت کو ایک ایسی حالت میں پہنچانے کے در پہ ہے جہاں اسکے لئے کسی بھی قسم کے اقدامات اٹھانا ناممکن ہو جائے۔

ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو کہ اسطرح کا تاثر اسلئے مقبولیت حاصل کر رہا ہے کیونکہ سیاسی نظام کو نقصان پہنچایا جا سکے، خصوصاً اس وقت جب عام انتخابات بھی سر پر ہیں۔

اب صدر مملکت ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین بنے رہنے کے معاملے کو ہی لے لیجیئے؛ ایک ایسا عہدہ جو کہ عام طور پہ سیاسی نوعیت کا ہوتا ہے۔

جہاں زرداری صاحب کا ایوان صدر کو سیاسی مقاصد کیلئے استمعال کوئی دانشمندانہ قدم نہیں ہے، وہیں تمام سیاسی قوتیں بھی اس پہ زیادہ شور مچاتی دکھائی نہیں دیتیں۔ خاص طور پہ اٹھارویں ترمیم کے بعد، جب صدر کا کردار محظ رسمی رہ گیا ہے۔

لہذا، اگرچہ جواب طلب ہی سہی پر ٹھوس اصطلاحات میں اس بات سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ کسی سیاست دان کو صدارت سونپ دی جائے۔

اسکے ساتھ، اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے سب سے بڑے اتحادی ہونے کی وجہ سے زرداری صاحب پارٹی کے کسی بھی منتخب اہلکار سے زیادہ اہمیت کے مزے اٹھارہے ہیں، چاہے وہ وزیراعظم ہو یا اور کوئی جو ان سے ایوان صدر کا دفتر لے سکے۔

جیسا کہ گیلانی صاحب نے کیا اور وزیراعظم اشرف بھی جلد کرتے نظر آئینگے، کہ جب زرداری صاحب پارٹی ممبران کو کچھ کرنے کا بولتے ہیں تو وہ کرتے ہیں۔

ویسے بھی عدالت اس چیز پہ کیسے پہرہ لگا سکتی ہے کہ ایوان صدر پارٹی مقاصد کیلئے استمعال ہورہا کہ نہیں؟ کیا وہ صدر صاحب کے پیپلز پارٹی عہدیداران اور اتحادیوں سے ملنے پہ پابندی لگا دیں گے؟ مگر ایسا کرنا غیر آئینی طریقے سے صدر کی سرگرمیوں پہ بابندی لگانے کا مترادف ہوگا۔

اسی طرح، گیلانی صاحب کے سر تسلیم خم کرنے کے بعد، پیپلزپارٹی کے ایک اوروزیراعظم کیلئے کچھ مختلف کرنا ناممکنات میں سے ہے۔

تو آخر صرف چند ہفتوں کے اندر ایک دوسرے وزیراعظم کو برطرف کرنے سے عدالت کو کیا فائدہ ہوگا؟

اگر ایک ڈھیٹ حکومت جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے تو ایک غیر لچکدار عدلیہ بھی اتنی ہی نقصان دہ ہے۔

امید ہے کہ اب بھی اتنا وقت بچا ہے کہ دانشمندی غالب آجائے— اداریہ

ڈان اخبار

تبصرے (2) بند ہیں

صائمہ Jun 30, 2012 06:44am
زرداری سے ایک سوال ہے کہ فرعون نے جو دولت کمائی، اسکے پاس جو دولت تھا کیا زرداری اس سے بھی زیادہ کمانا چاہتا ہے؟ اگر کما بھی لیں تو کہاں لے کے جائے گا؟ اے زرداری کیا تمھیں معلوم نہیں کے تمھیں اسکا جواب بھی دینا ہے.
اقبال عالم خان کالگری کینڈہ Jul 12, 2012 05:49am
صائم جی کیا واقعی یی آپ اتنی بھولی ہیں یا کو ئی خاص اندر کی بات کا علم ہے؟ کیا 12 سالوں کی عدالتوں کی چھان بین، نواز شریف کے نوازے ہو ججوں ، اور سیف اللہ نامی کارندوں کی جال بینیوں اور جیل کی سلاخوں کے پیچے ہونے کے باوجود کوئی ایک مقدمہ ثابت نہ کر سکے اسی زر- داری اور یہ ایک ایک کر کے تمام سے کروڑوں روپے سرکاری خزانے سے نکال کر وکلا ء کو نوازے جاتے رہے ، مگر اب جو آپ نے ثابت کر دیا کوئی نسخہ ہائے کیمیاء ہمیں بھی بتا دیں، پلیز

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025