توقف کا کوئی لمحہ نہیں

وہ لوگ جو عدلیہ اور پیپلز پارٹی کے زیر انتظام چلنے والی وفاقی حکومت کے درمیان محاذآرائی میں کچھ توقف کی امید کر رہے تھے، ان کے لئے بدھ کے روز مزید بری خبر سامنے آئی۔ لاہور میں ہائی کورٹ نے صدر مملکت کو پانچ ستمبر تک کی مہلت دے دی جس سے پہلے انکو تمام سیاسی سرگرمیاں اس وقت تک تلف کرنی پڑینگی جب تک وہ ایوان صدر میں براجمان ہیں۔ بصورت دیگر، عدالت کی طرف سے منفی حکم آنے کا اندیشہ ہے۔
دریں اثناء، اسلام آباد میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو عدالت کے دسمبر دوہزارنو این آراو فیصلے پر اپنا موقف پیش کرنے کیلئے بارہ جولائی تک کی مہلت دی ہے۔ یہ وہی فیصلہ ہے جو یوسف رضا گیلانی کے بطور وزیراعظم خاتمے کا باعث اس وقت بنا تھا جب انہوں نے نام نہاد سوئس خط لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔
اگر ایک لمحے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ اقدامات کے پیچھے موجود قانونی توجہیہ کو ایک طرف کر دیا جائے تو یہ نظریہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے کہ جیسے اعلیٰ عدلیہ اپنی تمام تر توجہ کیساتھ حکومت کو ایک ایسی حالت میں پہنچانے کے در پہ ہے جہاں اسکے لئے کسی بھی قسم کے اقدامات اٹھانا ناممکن ہو جائے۔
ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو کہ اسطرح کا تاثر اسلئے مقبولیت حاصل کر رہا ہے کیونکہ سیاسی نظام کو نقصان پہنچایا جا سکے، خصوصاً اس وقت جب عام انتخابات بھی سر پر ہیں۔
اب صدر مملکت ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین بنے رہنے کے معاملے کو ہی لے لیجیئے؛ ایک ایسا عہدہ جو کہ عام طور پہ سیاسی نوعیت کا ہوتا ہے۔
جہاں زرداری صاحب کا ایوان صدر کو سیاسی مقاصد کیلئے استمعال کوئی دانشمندانہ قدم نہیں ہے، وہیں تمام سیاسی قوتیں بھی اس پہ زیادہ شور مچاتی دکھائی نہیں دیتیں۔ خاص طور پہ اٹھارویں ترمیم کے بعد، جب صدر کا کردار محظ رسمی رہ گیا ہے۔
لہذا، اگرچہ جواب طلب ہی سہی پر ٹھوس اصطلاحات میں اس بات سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ کسی سیاست دان کو صدارت سونپ دی جائے۔
اسکے ساتھ، اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے سب سے بڑے اتحادی ہونے کی وجہ سے زرداری صاحب پارٹی کے کسی بھی منتخب اہلکار سے زیادہ اہمیت کے مزے اٹھارہے ہیں، چاہے وہ وزیراعظم ہو یا اور کوئی جو ان سے ایوان صدر کا دفتر لے سکے۔
جیسا کہ گیلانی صاحب نے کیا اور وزیراعظم اشرف بھی جلد کرتے نظر آئینگے، کہ جب زرداری صاحب پارٹی ممبران کو کچھ کرنے کا بولتے ہیں تو وہ کرتے ہیں۔
ویسے بھی عدالت اس چیز پہ کیسے پہرہ لگا سکتی ہے کہ ایوان صدر پارٹی مقاصد کیلئے استمعال ہورہا کہ نہیں؟ کیا وہ صدر صاحب کے پیپلز پارٹی عہدیداران اور اتحادیوں سے ملنے پہ پابندی لگا دیں گے؟ مگر ایسا کرنا غیر آئینی طریقے سے صدر کی سرگرمیوں پہ بابندی لگانے کا مترادف ہوگا۔
اسی طرح، گیلانی صاحب کے سر تسلیم خم کرنے کے بعد، پیپلزپارٹی کے ایک اوروزیراعظم کیلئے کچھ مختلف کرنا ناممکنات میں سے ہے۔
تو آخر صرف چند ہفتوں کے اندر ایک دوسرے وزیراعظم کو برطرف کرنے سے عدالت کو کیا فائدہ ہوگا؟
اگر ایک ڈھیٹ حکومت جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے تو ایک غیر لچکدار عدلیہ بھی اتنی ہی نقصان دہ ہے۔
امید ہے کہ اب بھی اتنا وقت بچا ہے کہ دانشمندی غالب آجائے— اداریہ











لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں