فوٹو -- مصنف --.
ڈ یجیٹل تصاویر کی مدد سےرقاصہ، شاہی پروہت اور موئن جو ڈرو کا تخلیقی تجریدی خیال، عکاسی: مختار آزاد

درحقیقت وہ کون تھی، مکمل تو معلوم نہیں مگر تھی شاید کسی عظیم دیوتا کی داسی یا پھر رقاصہ، وہ بازیاب بھی ہوئی شاہی پروہت کے ہمراہ معبد خانہ میں بنے چبوترے سے، جہاں دونوں کئی ہزار برس تک دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رہ رہے تھے۔

کہتے ہیں کہ ہزاروں برس سے روپوش رقاصہ کو بازیابی کے بعد، سندھ کے شہرلاڑکانہ سے اُسی طرح قید کر کے شاہوں کے راج سنگھاسن دلّی لے جایا گیا، جس طرح صدیوں پہلے تغلق دور میں سندھ کے سمّہ شہزادے قید کر کے لے جائے گئے تھے۔

اب وہ ہمارے لیے کیا ہے؟ عظیم تہذیب کے ہزاروں سال قدیم، شاندار ماضی اور روشن خیال ثقافت کی اہم نشانی۔ پروہ کہاں ہے؟ ہندوستان کی قید میں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ اُنیّسویں صدی کے آخر تک اُسے 'کافروں کا ٹیلہ' کہا گیا، بعض اُسے ‘مُردوں کا ٹیلہ’ بھی کہتے تھے مگر بیسویں صدی میں ہندوستان کے محکمہ آثارِ قدیمہ کے ماہرینِ آثار شناسی کی نظر پڑی اور پھر بیسویں صدی کے اوائل میں ٹیلے سے تہذیب برآمد ہونے لگی۔

یہ وہی مقام ہے جسے آج موئن جو دڑو کے نام سے دنیا جانتی ہے اور یہاں کی تہذیب دنیا کی چند عظیم الشان تہذیبوں میں شامل ہے۔ اسی کی نسبت تاریخ اور آثار شناسی میں لفظ ‘انڈس سویلائزیشن’ بھی شامل ہوا۔

بیسویں صدی کی دو دہائیاں گذر چکی تھیں جب انگریز ماہرِ آثار شناسی سر جان مارشل بھی دریائے سندھ کے کنارے اُس وسیع و عریض ٹیلے پر پہنچ گئے۔ یہ سن اُنیّسو بائیس کی بات ہے۔ گورے صاحب ہندوستان کے محکمہ آثارِ قدیمہ کے سربراہ تھے۔

وہ یہاں اپنی نگرانی میں کھدائی کرارہے تھے۔ وہ بھرے سورج کی ایک گرم دوپہر تھی، جب سطحِ زمین سے پانچ فٹ گہرے چوکور، خشک تالاب نما گڑھے سے ایک مزدور نے آواز لگائی اور گورے صاحب فوراً پہنچے۔

 فوٹو -- مصنف --.
موئن جو دڑو عجائب گھر میں آویزاں،سن اُنیّسو تیس کی دہائی کے اُس تاریخی لمحے کی تصویر، جب کھدائی میں شاہی پروہت کا مجسمہ ملا۔ مذدور کے ہاتھ میں مجسمہ (دائرے میں) جو وہ سر جان مارشل کو پیش کررہا ہے۔

مزدور نے ایک چھوٹا سا مجسمہ سر جان مارشل کی طرف بڑھایا۔ شاید چونے پتھر کا بنا تھا۔ یہی کوئی ڈیڑھ بالشت بھر کا ہوگا۔ اس کے بعد کانسی کا سیاہ مائل مجسمہ بھی ملا، وہ بھی صاب کے ہاتھوں میں پہنچ گیا۔ یہی تھے وہ دونوں جو بعد میں موئن جو دڑو کی پہچان بنے۔ ایک کہلایا شاہی پروہت دوسری شاید داسی پر کہلائی رقاصہ۔

شاہی پروہت جسے انگریز داں 'کِنگ پریسٹ' کہتے ہیں اور رقاصہ معروف ہوئی 'ڈانسنگ گرل' کے نام سے، جن کے متعلق یہ بات مسلمّہ حقیقت ہے کہ دونوں موئن جو دڑو سے دریافت، عظیم سندھی تہذیب کا سب سے اہم اثاثہ ہیں۔

سر مارشل نے ان دونوں اہم نوادرات کو سب سے پہلے لاہور میں قائم کردہ عجائب گھر منتقل کیا اور اُس کے بعد یہ دلّی لے جائے گئے لاہور کے راستے۔

کبھی اُس راستے سے وسط ایشیا کے فوجی مہم جو کرو کیشتر پار کر کے گنگا جمنا سرزمین پر قبضہ کرنے پہنچتے تھے۔ شاید اُس راہ سے پہلی بار عظیم سندھ ثقافت کے عملبردار شاہی پروہت اور داسی نے رخ کیا تھا مندروں، پروہتوں اور داسیوں کی دیومالائی سرزمینِ ہِند کا۔

اُنیسویں صدی کے وسط سے ذرا پہلے برِ صغیر کا بٹوارہ بہت کچھ تقسیم کرگیا۔ زمیں ہو یا خاندان، رشتے ہوں یا تعلق۔۔۔ سب کے حصے بخرے ہوئے اور پھر بیچ زمین پر دیواریں کھڑی ہوگئیں۔

ہندوستان نے بٹوارے کے بعد پیسہ ہو یا اسلحہ، فوج ہو یا زمین، حق سمجھ کر نہیں مجبوری کے عالم میں کچھ دیا اور کچھ ہم نے چھوڑ دیا جیسا کہ انڈین آفس لائبریری مگر جو شے تھی ہی ہماری، وہ واپس نہ مل سکی۔ کچھ ملا، جو ملا اُن پربھی شک کی اُنگلی ضرور اٹھتی ہے۔

 فوٹو -- مصنف --.
گوتم بودھ کا بحالتِ روزہ مشہورِ زمانہ مجسمہ۔ یہ نقل ہو بہو تیار کی گئی۔ عکاسی: مصنف

پاکستان کی تہذیبی تاریخ کی تین اہم نشانیاں ہیں: شاہی پروہت، رقاصہ اور ٹیکسلا سے دریافت ہونے والا گوتم بودھ کا بحالتِ روزہ سلیٹی مائل پتھر سے بنا مجسمہ۔ تینوں ہی تقسیم سے پہلے ہندوستان پہنچادیے گئے تھے۔ کیا دلچسپ حقیقت ہے کہ یہ تینوں جن مقامات سے ملے آج اقوامِ متحدہ کا ادارہ انہیں عالمی ورثہ قرار دے چکا ہے۔

تقسیم کے بعد جہاں پاکستان نے اپنا بہت کچھ حق مانگا وہیں اپنے تہذیبی آثار لوٹانے کا بھی مطالبہ کیا۔ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد جب خاک و خون کا ٹھہراؤ ہوا، اَتھل پُتھل سے اڑتی گرد جمی تو موئن جو ڈرو کے نگراں ماہرِ آثار شناسی ڈاکٹر ایف اے خان کو دلّی بھیجا گیا تاکہ ہندوستانی سرکار سے آثار لوٹانے کا مطالبہ کرسکیں۔

مذاکرات ہوئے اور ہندوستان حیلے بہانوں سے تھک کر آخر لوٹانے پر مجبور تو ہوا مگر ساتھ ہی ایک فرمائش بھی کرڈالی۔ وہ تینوں میں سے کسی ایک کو اپنی تحویل میں رکھنا چاہتا تھا۔ آخر پاکستان مان گیا اور اسے شے منتخب کرنے کا اختیار دے دیا۔ دیوی دیوتاؤں والے ہندوستان نے موئن جو دڑو کی داسی رکھ لی۔

کیا عجب اتفاق کہ جب غیر ملکی حملہ آور مقامی ہندوستانیوں کی ریاستیں فتح کرتے تو حرم لوٹ لیے جاتے تھے۔ رانیاں اور شہزادیاں بھی بطور مالِ غنیمت کنیز کی صورت فاتحین میں بٹ جاتی تھیں۔ خود ہندوستان کو موقع ملا تو اس نے سندھ کے معبد کی داسی کو ہی ہتھیالیا۔

تو بات یہ کہ گوتم بودھ اور شاہی پروہت کے مجسمے تو اپنی سرزمین پر لوٹ آئے پر سندھی رقاصہ وہیں رہ گئی بادشاہوں کی دلّی میں۔

Pic 4-670
موئن جو دڑو کا وہ مقام جہاں سے پروہت اور رقاصہ کا مجسمہ ملا۔ وہ دونوں نظر آنے والے چبوترے سے ملے تھے۔ عکاسی مصنف

ویسے، بادشاہوں اورراجاؤں کے رویے ایسے ہی رہے ہیں۔ سندھ کے راجا عمر نے ملیر کی ماروی کو اپنانے کے لیے قید کیا تھا۔ وہی ماروی جس پر شاہ لطیف سے شیخ ایاز تک، سب نے گیت کہے پر سندھی رقاصہ کو سب بھول چکے۔

اس وقت موئن جو دڑو کے عجائب گھر میں رقاصہ کے مجسمے کی نقل اور مبینہ اصلی شاہی پروہت کراچی کے قومی عجائب گھر جبکہ گوتم بودھ کا مجسمہ لاہور عجائب گھر میں رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی تحویل میں موجود رقاصہ کا اصل مجسمہ دلّی کے عجائب گھر میں موجود ہے۔

لاہور اور کراچی کے سرکاری عجائب گھروں کی انتظامیہ کا اصرار ہے کہ گوتم بودھ اور شاہی پروہت کے مجسمے اصلی ہیں۔ لاہور کے نجی عجائب گھر فقیر خانہ کے نگراں فقیر اعجازالدین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں، لیکن نوادرات میں دلچسپی رکھنے والے متعدد صاحبانِ علم کو اس رائے سے یکسر اختلاف رہا ہے۔

میرے عزیز دوست معروف دانشور، دستاویزی فلم ساز، مورخ اور آثار شناس عبیداللہ بیگ مرحوم سےکئی برس پہلے گپ شپ ہورہی تھی کہ ان تینوں نوادرات کا ذکر چھڑ گیا، کہنے لگے:

'میں نے عجائب خانوں پر بہت کام کیا ہے اور نہ صرف یہ میری ذاتی رائے ہے بلکہ بہت سارے دیگر اہلِ علم بھی گوتم بودھ اور شاہی پروہت کے مجسمےکی اصلیت کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کا کاربن ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ حقیقتِ حال سامنے آئے، اندیشہ ہے کہ ہندوستان نے اصل کے بجائے نوادرات کی نقلیں واپس کی تھیں'۔

پاکستان میں نوادرات میں دلچسپی رکھنے والوں کی ایک چھوٹی سی 'انجمن تاریخ و آثار شناسی' ہے۔ خود ملک کے معروف ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی بھی کبھی اس کے صدر نشیں تھے۔ کئی برس پہلے انجمن کے اُس وقت کے سربراہ اور سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر غضنفر مہدی سے اُن کے گھر پر ملاقات ہوئی۔ انجمن خود بھی نوادرات کوٹانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔

غضنفر مہدی کا کہنا تھا کہ تقسیم سے قبل لاہور اور ملتان کے قلعوں سے بھاری تعداد میں ایسے نوادرات ہندوستان منتقل کیے گئے، جن کا جغرافیائی تعلق آج کے پاکستان کی سرزمین سے ہے، رقاصہ کے ساتھ اُن کی واپسی بھی لازمی ہونی چاہیے۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مستحکم تعلقات ضرورت ہیں لیکن مکمل طور پر خوشگوار ثقافتی تعلقات کے لیے ایک دوسرے کی تاریخی اقدار اور پہچان کو تسلیم کیے جانا بھی ضروری ہے۔

دونوں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت پاکستان میں ہندوستانی فلموں کی نمائش اور ثقافتی وفود تک محدود نہیں رہنی چاہیے، ہمیں اپنے ان نوادرات کی واپسی کے لیے بھی مذاکرات کرنے چاہئیں جو اب تک بلا جواز ہندوستان کی تحویل میں ہیں۔

تو اے ہندوستان سُنو اور ہماری رقاصہ لوٹادو۔ ہم تم سے یہ اُسی طرح مطالبہ کرتے ہیں جیسا تم ملکہ برطانیہ سے کوہِ نور کی واپسی کا تقاضا کرتے ہو۔


 mukhtar-80   مختار آزاد کہانی کار، کالم نگار، دستاویزی فلم ساز اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

softncool Apr 17, 2013 05:27am
thanks to India, at least she will be safe in India, in Pakistan, you will do as you did with Buddha statue in Afghanistan, by the way you already shows that your culture is belongs to Saudi Arabia, not sindh or hind