• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

مشرف کی رسوائی، فوج کا ردّعمل کیا ہوگا؟

شائع April 23, 2013

PAKISTAN-UNREST-VOTE-MUSHARRAF
فوج اس معاملے کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو ایک خاص حد سے زیادہ برداشت نہیں کرے گی: اسلم بیگ۔ —. فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: ججز کو نظربند کرنے کے الزام میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر قائم ایک مقدمے کے بعد ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کو ان کے فارم ہاؤس چک شہزاد سے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔

اسی کے ساتھ سابق فوجی جرنیلوں نے یہ خبردار کیا ہے کہ اگر وکلاء اُن کے سابق چیف کو دیوار سے لگانے کی کوشش جاری رکھیں گے تو فوج ان کے اس عمل کو برداشت نہیں کرے گی۔

ججز کی حراست کے مقدمے کی درخواست دائر کرنے والے چوہدری محمد اشرف گجر نے ایک پٹیشن پرویز مشرف کی ضمانت قبل از گرفتاری رد ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کو جمع کرائی ہے کہ چیف کمشنر اسلام آباد طارق محمود پیرزادہ اور انسپکٹرجنرل پولیس اسلام آباد بانی امین خان نے سابق صدر کے ساتھ ناجائز نرمی برتی اور چک شہزاد میں ان کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دے دیا۔

مذکورہ درخواست میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ عدالت کی ہدایات کے باوجود بھی ان پر تفتیش نہیں کی گئی۔ پرویز مشرف ایک اشتہاری مجرم قرار دیئے جاچکے تھے، اور ان پر دہشت گردی سے متعلق جرم کا الزام بھی لگایا گیا تھا، چنانچہ وہ اڈیالہ جیل کے سوا کسی اور مقام پر قید کے حقدار نہیں تھے۔

انہوں نے درخواست کی کہ عدالت بیس اپریل کو جاری کیے جانے والے تحریری نوٹس جس کے مطابق سابق جنرل کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا گیا تھا، منسوخ کردیا جائے۔

جب پرویز مشرف کے وکیل قمر افضل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وکلاء اپنی شہرت کے لیے سابق صدر کو عدالتوں میں گھسیٹ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سماعت کے دوران وکلاء نے عدالت کا متعینہ وقت بھی مکمل ہونے نہیں دیا اور سابق صدر پاکستان کے خلاف نامناسب زبان اور غیر اخلاقی تبصرے کرتے رہے۔

قمر افضل کے مطابق وکلاء کی یہ کوشش تھی کہ وہ کسی طرح بھی سابق صدر کو ذلیل کرسکیں، وہ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے شہرت حاصل کرنے کاشوق پورا کررہے تھے۔

دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) جمشید ایاز نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج نہایت گہری نظر سے تمام صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا تقریباً نو ایسے کور کمانڈر اس وقت فوج میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جن کی ترقی مشرف کے دورِ حکومت میں ہوئی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مشرف کے لیے بھی اس وقت فوج کی صفوں میں حمایت موجود ہے، اور ان کے ساتھ کسی بھی طرح کے ذلّت آمیز سلوک کی صورت میں موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی مشرف کو بچانے کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہئیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ “دوسری صورت میں پرویز مشرف سے ہمدردیاں رکھنے والے سابق فوجی سربراہ کو بچانے کے لیے مداخلت کرسکتے ہیں۔”

سابق فوجیوں کی تنظیم کے صدر جنرل (ریٹائرڈ) فیض علی چشتی کا خیال تھا کہ مشرف عدالت میں ایک مقدمے کا سامنا کررہے ہیں، انہوں نے کچھ غلط کیا ہوگا، لیکن وکلاء کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے کہ وہ ان کے ساتھ مجرم کی مانند سلوک کریں۔

انہوں نے کہا “قانون کی نظر میں ہر شخص معصوم ہے، جب تک کہ اس کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔” انہوں نے مزید کہا کہ جب عدالت اپنا فیصلہ دے دیں، تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا م اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا ہے اور وکلاء کا کردار صرف اتنا ہے کہ وہ عدالت کی مدد کریں۔

جنرل چشتی نے مزید کہا کہ لیکن سابق صدر کے معاملے میں کالے کوٹ والے یہ کوشش کررہے ہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں، جو کہ قابل قبول نہیں ہے۔

تاہم اسی کے ساتھ ساتھ اب تک مشرف سے روا رکھے  گئے برتاؤ کے حوالے سے سابق فوجیوں کی رائے میں کچھ اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی آفیسرز کی ایسوسی ایشن کے ترجمان برگیڈیئر (ر) میاں محمد محمود دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل مشرف کے لییے سابق فوجیوں کے دلوں میں کوئی ہمدردی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف نے 2007ء کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حراست میں رکھا تھا، اب جو بویا تھا وہی کاٹ رہے ہیں۔

بریگیڈیئر محمود نے کہا “ہم ججوں کی بحالی کی تحریک کے دوران وکلاء اور سول سوسائٹی کے ساتھ تھے  جو قانون کی بالادستی کے لیے قربانیاں دے رہے تھے۔”

تاہم انہوں نے کہا کہ وکلاء کو مشرف کی عدالت میں حاضری کے وقت مہذب رویہ اختیار کرنا چاہئیے، تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ وہ قانون کی بالادستی کے لیے لڑتے رہے ہیں، اور انہیں انتظار  کرنا چاہئیے کہ عدالت سابق ڈکٹیٹر کے متعلق کیا فیصلہ سناتی ہے۔

سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) اسلم بیگ ایک دوسرے رُخ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ فوج اس معاملے کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو ایک خاص حد سے زیادہ برداشت نہیں کرے گی۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ کچھ حلقے سابق فوجی سربراہ کے خلاف وکلاء کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔ “دوسری صورت میں وہ ایک ایسے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اس ملک پر حکومت کر چکا ہو، کے ساتھ ذلّت آمیز برتاؤ کی جرأت ہرگز نہیں کرسکتے تھے۔”

ان کے مطابق کچھ عناصر نے مشرف کے لیے ایک جال بچھایا تھا ، جب وہ بیرون ملک مقیم تھے، سوشل میڈیا کے ذریعے ایسا تاثر دیا گیا کہ گویا پورا ملک ان کا انتظار کر رہا ہے، اور ان کی وطن واپسی پر ان کا گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشرف  کی آمد کے بعد منصوبہ بندی کی گئی اور مربوط کوششوں کے ذریعے انہیں نیچا دکھایا گیا، جنرل پرویز مشرف کے ساتھ  غیر ضروری کارروائی کے ذریعے آرمی کو اُکسایا جارہا ہے، اور ادارے کو اس معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا “اگر وکلاء نے سابق فوجی سربراہ کے ساتھ ذلت آمیز برتاؤ جاری رکھا  اور فوج کو عدالت میں گھسیٹنے کی کوشش کی تو یہ صورتحال خطرناک موڑ اختیار کرسکتی ہے۔”

سینئر تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کے مطابق آرمی جنرل مشرف کو پاکستان واپس آنے سے روک رہی تھی، لیکن سابق جنرل نے اس مشورے کو نظرانداز کردیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر انہوں نے کسی ایڈونچر کی کوشش کی تو فوج ان کو بچانے کے لیے نہیں آئے گی، اس لیے کہ انہوں نے دوبارہ فوج کا امیج برباد کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوج نے اپنی مسلسل کوششوں سے اپنے امیج کو بحال کرلیا ہے، اور کچھ مخصوص اہداف بھی حاصل کیے ہیں، لہٰذا وہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ وہ مشرف کے لیے یہ کوششیں برباد ہوجائیں۔

اس کے علاوہ سینئر صحافی امتیاز گل بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ فوج مشرف کو بچانے کے لیے کسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہے گی۔

انہوں نے کہا کہ کالے کوٹ والوں کی اشتعال انگیز حرکتوں سے جو وہ عدالت میں مشرف کے غلط کاموں پر ان کو سزا دلوانے کے لیے  کررہے ہیں، عوام میں خود ان کی شہرت کو نقصان پہنچے گا۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید قلب حسن جو وکلاء کی صف اوّل میں شمار کیے جاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ ابھی مشرف کے خلاف غداری کے الزام کا جائزہ لے رہی تھی، اور اعلیٰ عدلیہ میں سینئر وکلاء سابق فوجی حکمران کی حمایت اور مخالفت میں اپنے دلائل دے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ چند وکلاء اپنے خفیہ ایجنڈے کے تحت سابق جنرل کے ساتھ بدسلوکی کرکے اپنی پوری برادری کا نام بدنام کررہے تھے۔

وہ مشرف پر دباؤ ڈال رہے ہیں ، اس لیے کہ وہ چاہتے ہیں کہ مشرف مقدمات کا سامنا کیے بغیر ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔

سید قلب حسن نے تجویز پیش کی کہ مشرف کے 1999ء کے اقدام پر قانون کے مطابق کاروائی کی جانی چاہئیے، اور ان جرنیلوں اور ججوں کے ساتھ بھی جنہوں نے مشرف کو 1999ء اور 2007ء کے دوران ان کے غیر آئینی اقدامات پر انہیں سہولتیں فراہم کی تھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Apr 23, 2013 04:29pm
سب چاہتے کۂ مجرم کو سزا ملے چھوٹا یا بڑا فوجی هو سیول سیاسی هو یا غیر سیاسی گناهگار کو سزا ملنی چاہیے لیکن فوج کے خلاف کوئی نہیں جاتا فوج قانون سے بالاتر هے قانون صرف عوام کیلئے هوتا هے نگران حکومت کا مشرف کے خلاف مقدمہ نه چلانا ایک بزدلانہ فیصلہ هے هم اسکی مذمت کرتے هیں اور ڈرپوک اور بزدل حکومت پر لعنت بھیجتے هیں سیاسی لیڈروں کو تو پھانسی دی جاتی هےجیل میں ڈال دیا جاتا هے اور جلاوطن کیا جاتاهے احتساب هوتا هےلیکن اگرکوئی فوجی آئین کو تھوڑے قتل وغارت اور دیگر غیر قانونی اقدامات کریں تو ان کیلئے نۂ قانون هے نۂ ضابطۂ هماری سیاسی لیڈرشپ اور سیول بیوروکریسی فوج کے سامنے بے بسی نظر آرہی هیں جو شرم ناک اور قابل نفرت هے اور قوم کے ساتھ دهوکۂ هے اور اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی مجرمانہ هے

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025