پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے قمر زمان کائرہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ہیں اور ابھی کچھ عرصہ قبل تک وہ پی پی پی کی سربراہی میں قائم مخلوط وفاقی حکومت میں وزیرِ اطلاعات و نشریات کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

پانچ جنوری، سن اُنیّسو ساٹھ کو لالہ موسیٰ میں جنم لینے والے کائرہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی جبکہ جامعہ پنجاب سے فلسفہ میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔

کائرہ پہلی بار، سن دو ہزار دو کے عام انتخابات میں این اے -106 ، گجرات تین سے رکن منتخب ہوئے تھے۔

سن دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں بھی وہ ایک بار پھر اسی حلقے سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

وہ گلگت ۔ بلتستان کے لیے قائم مقام گورنر رہنے کے علاوہ، وفاقی وزیر برائے کشمیر و شمالی علاقہ جات اور پورٹس اینڈ شپنگ بھی رہے۔

ان عہدوں کے علاوہ وہ پی پی پی کے سیکریٹری اطلاعات کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔

سن دو ہزار نو میں شیری رحمان کے استعفیٰ کے بعد انہیں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات کے عہدے پر فائز کیا گیا تاہم سن دو ہزار گیارہ میں یہ وزارت فردوس عاشق اعوان کے حوالے کردی گی۔

بعد ازاں، اعوان صاحبہ کے پارٹی ارکان سے اختلافات اور وزارت کے امور میں بعض مسائل کے سبب دیے گئے استعفیٰ کے بعد، اپریل دو ہزار بارہ میں کائرہ ایک بار پھر وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات مقرر کردیے گئے۔

چند ماہ قبل عدالتی احکامات پر وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے بعد، قمر زمان کائرہ نے بھی وزارتِ عظمیٰ کے لیے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے۔

پارٹی قیادت نے گیلانی کی جگہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے سینئر رہنما مخدوم شہاب الدین کو نامزد کردیا تھا تاہم ایک مقدمے میں ان کے وارنتِ گرفتاری جاری ہونے کے بعد صورتِ حال بدل گئی۔

جس کے بعد نئے وزیرِ اعظم کے لیے راجہ پرویز اشرف کے ساتھ ساتھ قمر زمان کائرہ کا نام بھی سامنے آیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے حالیہ دورِ اقتدار میں، جماعت کو مختلف بحرانو ں کا سامنا رہا اور کائرہ اس دوران ہر محاذ پر پیش پیش رہے۔

جنوری دو ہزار تیرہ میں وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد میں دیے گئے دھرنے کے دوران، اُن سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے ایک اہم رکن تھے۔

سن دو ہزار آٹھ سے لے کر دو ہزار تیرہ تک، پی پی پی کی سربراہی میں قائم مخلوطِ دورِ حکمرانی میں  وہ ہر محاذ پر پارٹی کا دفاع کرتے نظر آئے۔

حال ہی میں، بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پیدا شدہ عوامی بے چینی دور کرنے کے موقع پربھی ان کا مصالحتی کردار نمایاں تھا۔

تحقیق و تحریر: سحر بلوچ

ترجمہ: مختار آزاد

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں