اندرون لاہور کے کچھ حصوں میں خواتین پولنگ اسٹیشنز پر اپنا ووٹ کاسٹ کررہی ہیں ۔- رائٹرز فوٹو
اندرون لاہور کے کچھ حصوں میں خواتین پولنگ اسٹیشنز پر اپنا ووٹ کاسٹ کررہی ہیں ۔- رائٹرز فوٹو

"پاکستان کے لئے ووٹ دیں"، یہ وہ نعرہ تھا جو بہت سوں نے ہفتے کے دن پولنگ سٹیشن جانے سے پہلے سنا-

پچھلا پورا ہفتے مجھے ایسے لوگ ملتے رہے جنہوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ کس کو ووٹ دیں گے لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ انہوں نے ووٹ دینا ہے- بہت سے پہلی بار ووٹ دینے جا رہی تھے، جو کہ قطاروں میں ہونے والی گفت و شنید سے پریشان تھے، انگوٹھے کے نشانات، سبز اور سفید فارم لیکن پھر بھی پولنگ میں حصّہ لینے کے لئے بے چین تھے-

وہ پیغام جو سیاسی جماعتوں نے دیا تھا اور میڈیا نے جسے آگے بڑھایا تھا چاروں طرف گونج رہا تھا- جنہوں نے ووٹ دیا وہی اصلی فاتح تھے جنہوں نے نہیں دیا اور گھر بیٹھے رہے وہ ہار گۓ-

ووٹ کو تبدیلی کی چابی کہا گیا، اور دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے بیلٹ کو گولی کا متبادل بتایا گیا-

ہفتے کی صبح پولنگ شروع ہونے سے پہلے تک پاکستان کے لئے ووٹ ایک پرجوش پکار تھی- تقریباً 50 فیصد رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنا پولنگ اسٹیشن معلوم کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کی SMS سروس استعمال کی، اور برٹش کونسل پول کے مطابق 30 سال سے کم عمر کے 62 فیصد پاکستانی ووٹ دینے کے لئے تیار تھے- یہ دونوں باتیں بہتر نتائج کے لئے اچھا شگون تھیں-

ہو سکتا ہے وہ اس بات کا پوری طرح احاطہ نہ کر پا رہے ہوں، لیکن جس نے بھی پاکستان کے لئے ووٹ دینے کی پکار پر کان دھرے وہ دراصل خود جمہوریت کی حمایت میں ووٹ دے رہے تھے-

سیاسی، علاقائی، لسانی اور فرقہ پرستی کے اختلافات سے اوپر اٹھ کر، بہت سے، خاص طور سےپہلی بار ووٹ ڈالنے والے، متوسط طبقے کے شہری نوجوان تاکہ جمہوری حکومت کا سلسلہ جاری رہے جو کہ فوجی آمریت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور ساتھ ہی سیاسی سودے بازوں پر اس بات کو واضح کر دینا کہ عوام ہی اصل اثاثہ ہے-

یہ بدقسمتی ہے کہ انتخابات سے پہلے کی نعرے بازیوں میں جمہوریت کو صحیح مقام نہیں دیا گیا، پاکستان میں عام ان میں سے ایک عجیب تردید یہ کہ سیاسی عمل میں جوش و خروش کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے لئے شک و شبہات بھی چلتے رہے- بنیادی جمہوری حق کے بجاۓ، ووٹ کو ایک لمبی اور مشقت بھری جنگ کے بعد ملنے والا انعام تصور کیا گیا، ایک بدلتا ہوا پاکستان خصوصی مراعات بن گیا-

اس خیال کو عمران خان کی پرجوش تقریر سے زیادہ کوئی تقویت نہیں دے سکتا تھا جو انہوں نے ہسپتال کے بستر پہ دی، پاکستانیوں سے ووٹ دینے کے لئے ایک جذباتی گزارش. انہوں نے کہا "میں پاکستان کے لئے جو کر سکتا تھا، میں نے کیا، اب یہ آپ پر ہے"-

چیف الیکشن کمشنر فخرالدین ابراہیم نے بھی انتخابات کی آخری شام ان ہی جذبات کا اظہار کیا، جنہوں نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہفتے کے دن 60 فیصد ووٹ پاکستان کو بدل دیں گے-

حق راۓ دہی استعمال کرنے کا جوش ایسے ملک میں بازی پلٹ دیتا ہے جہاں عوام نے نہ صرف فوجی آمریت کو برسوں تک برداشت کیا بلکہ بعض اوقات اس کو خوش آمدید بھی کہا- لیکن پرانی عادتیں مشکل سے ہی جاتی ہیں چنانچہ لوگوں نے تبدیلی کی بجاۓ نجات دھندہ کو ووٹ دیا-

انتخابی مہم کی سب سے مایوس کن بات یہ تھی کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور تعصب ایک طرف، تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے عوام کو باہر آنے اور ووٹ دینے کو کہا- ووٹ دینا یقیناً ضروری ہے لیکن اسے ملک کی طرف عوام کی ذمہ داری کی طرح پیش کیا گیا- ووٹ ڈالنے کے بعد جوش و خروش سے باہر آکر کتنے ووٹر اس بات کو محسوس کریں گے کہ انکا اصل کام تو اب شروع ہوا ہے؟

ہفتے کے انتخابات یقیناً ایک سنگ میل ہیں لیکن ابھی آگے اور بھی امتحانات باقی ہیں- پاکستان اس سال نۓ چیف جسٹس اور نۓ چیف آف آرمی اسٹاف کو دیکھے گا- بہت سے اداروں کے درمیان اہم مفاہمت ہونگی جو کہ پچھلے پانچ سالوں میں حکومت کے مینڈیٹ کے زور پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف رہے- اداروں کے درمیان تکرار بھی اگلے مہینوں میں ضرور ہوگی، لیکن یہ راۓ دہندگان پر منحصر ہوگا کہ وہ شہری نظام حکومت کے ساتھ اپنی وابستگی قائم رکھیں-

ضرورت اس بات کی بھی ہوگی کہ حکومت کا ہر ادارہ (فوج بھی) آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کام کرے، سب سے اہم یہ کہ خود کو قوم کا نجات دھندہ بنانے کی خواہش کو دور بھگاۓ چاہے وہ وردی میں ہوں یا عبا میں-

اس وقت سب سے اہم چیلنج جو کہ عوام کو حمایتی بنانے کے لئے اہم ہو سکتا ہے، وہ ہے خستہ اقتصادی حالت کو بہتر بنانا- الیکشن کا جو بھی نتیجہ ہو، جیتنے والی حکومت کو مالیاتی نظام اور اقتصادی پیداوار کو اہمیت دینی ہوگی- لیکن یہ ممکن ہے کہ ان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی مہربانیاں کم وصول ہوں- احکامات ملیں گے جن میں مراعات کم ہوں گی، سختی زیادہ اور زیادہ محصولات کا مطالبہ کیا جاۓ گا-

انتخابات کی دوڑ میں جس بات کی کمی تھی وہ یہ تھی کہ عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ آگے بڑھنے کے لئے انہیں قربانیاں دینی پڑیں گی- اس وقت بہت سے پاکستانیوں نے تبدیلی کے لئے ووٹ دیا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ تبدیلی ہوگی کیا؟ یا اسکو لانے کے لئے انہیں کیا کرنا ہوگا؟

انتخابی مہم کے بڑے بڑے وعدوں،جیسے، بیرونی امداد پر انحصار میں کمی، تعلیم پہ زیادہ اخراجات، توانائی کے بحران کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کرنے کے لئے حکومت کو آمدنی بڑھانی ہوگی- اس کا مطلب زیادہ ٹیکس اور بہت سے اقتصادی اور پالیسی اصلاحات جن کا اثر عام شہری پر مختلف طریقوں سے ہوگا-

پاکستانیوں کو اس بات کا احساس دلانے میں ناکام رہنے کی وجہ سے کہ جمہوریت سے وابستگی اور قربانیاں انتخابات کے بعد بھی جاری رہیں گی، نئی حکومت نے راۓ دہندگان کی امیدوں کو جوکھم میں ڈال دیا ہے- یہ خاص طور سے ان نوجوان پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں کے لئے درست ہے جو کہ مندرج ووٹروں کے 34 فیصد پر مشتمل ہیں- ان نوجوانوں کو یہ باور کروا دیا گیا کہ ووٹ ڈالنا اس نۓ سمجھوتے کا آخری پڑاؤ ہے- انکو نظاماتی تبدیلی اور تکلیف دہ پالیسی کے اطلاق کے بارے میں بہت کم بتایا گیا ہے، اور اسی لئے وہ آنے والے سیاسی انتقال سے متنفر ہو جائیں گے چاہے وہ پچھلی حکومت سے کہیں زیادہ موثر کیوں نہ ہو-

پاکستانی خاص طور سے متوسط طبقے کے جوان شہری ہو سکتا ہے یہ ثابت کردیں کے تبدیلی لانے کے لئے وہ ہر قسم کی آزمائش سے گزرنے کو تیار ہیں- وہ اس وقت تک ملک کے کئی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کو تیار نہیں ہونگے جب تک وہ یہ نہ دیکھ لیں کہ انکی ہر کوشش ایک واضح قومی نظریےکی طرف نہ لے جاۓ جس کا وہ خود کو اہم حصّہ سمجھتے ہیں-


ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں