کیباہ اپنی والدہ کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ طبی تاریخ میں یہ پہلا کیس ہے جس میں متاثرہ سانس کی نالی کا حصہ تھری ڈی لیزر پرنٹنگ سے تیار کیا گیا اور اسے کامیابی سے جسم میں منتقل کیا گیا۔ اے پی تصویر
کیباہ اپنی والدہ کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ طبی تاریخ میں یہ پہلا کیس ہے جس میں متاثرہ سانس کی نالی کا حصہ تھری ڈی لیزر پرنٹنگ سے تیار کیا گیا اور اسے کامیابی سے جسم میں منتقل کیا گیا۔ اے پی تصویر

اوہایو، امریکہ: میڈیکل تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈاکٹروں نے پلاسٹک ذرات اور تھری ڈی لیزرپرنٹرکی مدد سے سانس کی ایک نالی تیار کی ہے جس سے ایک چھوٹے بچے کی جان بچانا ممکن ہوا ہے۔ اس سے قبل بچے کی سانس تقریباً ہر روز رک جایا کرتی تھی ۔ ری جنریٹو میڈیسن کی یہ ایک تازہ اور اہم کاوش ہے۔

 کیباہ گوئنفریڈو نامی بیس ماہ کا بچے کا معاملہ اتنا حساس تھا کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا جاسکتا۔ پیدائشی طورپر جسمانی نقص کی وجہ سے اس کی سانس کی نالی تقریباً ناکارہ ہوچکی تھی۔ اکثر اس کی سانس رک جاتی اور کبھی کبھی تو دل بھی تھم جاتا تھا۔ اسی لئے کیباہ مسلسل ہسپتال میں رہتا تھا اور اس کی نگہداشت کی جاتی تھی ۔

مشی گن کے ڈاکٹروںنے سانس کی مصنوعی نالی پر تحقیق اور کھوج جاری رکھی ہوئی تھی لیکن اب تک اسے کسی بھی مریض پر آزمایا نہیں گیا تھا۔

ایک روز انہوں نے تقریباً 100 کے قریب چھوٹی نالیاں ( ٹیوبس) پرنٹ کرڈالیں۔ لیکن پرنٹنگ کے اس عمل میں کاغذ اور سیاہی کی بجائے کمپیوٹر گائیڈیڈ لیزر کے ذریعے پلاسٹک کی پتلی تہیں پرنٹ کیں اور اس کے لئے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ( ایف ڈی اے) سے خصوصی اجازت لی گئ۔

پھر انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ کمپیوٹر سے پرنٹ کردہ سانس کی مصنوعی نالی ایک مریض بچے میں لگائی گئی ۔

پھر اس بچے نے پہلی مرتبہ نارمل انداز میں سانس لیا جس کے بارے میں ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ ہسپتال کی چار دیواری سے باہر نکلتے ہی دم توڑ دےگا۔

تصویر میں تھری ڈی پرنٹر سے تیارکردہ سانس کی نالی نمایاں ہے۔ اے پی تصویر
تصویر میں تھری ڈی پرنٹر سے تیارکردہ سانس کی نالی نمایاں ہے۔ اے پی تصویر

کیباہ کو جب سانس میں دقت کی وجہ سے ہسپتال لایا گیا تو اس وقت اس کی عمر صرف تین ماہ تھی ۔ اس کی سانس کی نالی ٹریکیا کو نکال لیا گیا تھا۔ اور اسے سانس لینے کی مشین پر رکھا گیا تھا۔

یونیورسٹی آف مشی گن این آربر کے سی ایس موٹ چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹر گلین گرین نے کہا کہ اب یہ بچہ بہت صحتمند ہے۔

اس اہم کارنامے کی تفصیل جمعرات کو نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہوئی ہے۔ آزادانہ ذرائع اور دیگر ماہرین نے تھری ڈی پرنٹنگ کے زریعے جسمانی اعضا کی تیاری کو بہت سراہا ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں اعضا کی قلت کو اس طریقے سے بھی دور کیا جاسکتا ہے۔

اب تک بہت ہی کم افراد کے ونڈ پائپ یا سانس کی نالی کو بدلا جاسکا ہے۔ کینسر سے تباہ ہونے والے نالی کو فوت ہوجانے والے افراد کی جانب سے نالی عطیہ کرنے کی صورت میں ہی بدلا گیا ہے۔ دوسری جانب انہیں اسٹیم سیلز سے تیار کرنے پر بھی کام ہورہا ہے لیکن ابھی اس میں کامیابی بہت دور ہے۔

کیباہ کا مسئلہ پیچیدہ تھا۔ اس کی سانس کی نالی سے پتلون کے پائنچوں کی طرح نکلنے والی دو شاخوں میں سے ایک نالی متاثر تھی ۔ یہ ایک پیدائشی نقص ہے ۔ اکثر اوقات اس کا پتا اس وقت چلتا ہے جب بچہ سانس لینا بند کردیتا ہے اور ہسپتال آتے ہوئے دم توڑ دیتا ہے۔

کیباہ کا یہ مرض اس وقت پتا چلا جب وہ چھ ہفتوں کا تھا ۔ اس کے والدین کے ساتھ وہ ایک ریستوران میں تھا کہ اچانک نیلا پڑگیا اورسانس لینا بند کردیا ۔

پھر اس کا ایک آپریشن بھی کیا گیا ۔

اب حیاتیاتی طور پر از خود گھل کر ختم ہوجانے والے یا بایوڈگریڈایبل پولی ایسٹر سے اس کے لئے سانس کی نالی بنانے پر کام شروع ہوا۔ اس کا پہلا آپریش گزشتہ سال فروری میں کیا گیا ۔ اس کے بعد اسی مٹیریل سے ایک سپورٹنگ سانس کی نالی تیار کی گئی جو تین سال میں گھل کر ختم ہوجائے گی اور اصل خلیات ( سیل) اس کی جگہ لے لیں گے۔ یہ نالی ایک جدید ترین تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار کی گئ ہے۔

ماہرین پر امید ہے کہ اگلے چند برسوں میں یہ ٹیکنالوجی مزید ترقی کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں