لیڈروں کی دولت: شہباز، نواز سے زیادہ امیر
اسلام آباد، 30 مئی: مسلم لیگ نون کے رہنما محمد شہباز شریف جو پنجاب کے وزیراعلیٰ کا عہدہ ایک مرتبہ پھر سنبھالنے جارہے ہیں، اپنے بھائی اور ملک کے اگلے وزیراعظم سے زیادہ دولت مند ہیں۔
الیکشن کمیشن کو جمع کرائے جانے والے کاغذات نامزدگی میں دیئے گئے اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال نواز شریف کے کل اثاثہ جات چھبیس کروڑ سولہ لاکھ روپے تھے اور شہباز شریف کے تینتس کروڑ انہتر لاکھ روپے کے لگ بھگ تھے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کے اثاثوں کی مالیت میں ایک سال کے اندر نوکروڑ چھپن لاکھ روپے کا اضافہ ہوا جبکہ شہباز شریف کے اثاثوں میں پانچ کروڑ پینسٹھ لاکھ روپے کی کمی واقع ہوئی۔ 2011ء کے دوران دونوں بھائیوں کے اثاثوں کی مالیت سولہ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے اور انتالیس کروڑ تیس لاکھ روپے تھی۔
ٹیکس کی تفصیلات کے مطابق نواز شریف کی کل آمدنی 2010ء کے دوران ستانوے لاکھ روپے تھی، 2011ء میں بڑھ کر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے اور 2012ء میں ایک کروڑ چوبیس لاکھ روپے رہی، انہوں نے انکم ٹیکس کی مد میں بیس لاکھ روپے، اٹھائیس لاکھ روپے اور چوبیس لاکھ روپے جمع کرائے۔
نوازشریف کی جاگیر 2010ء اور 2011ء میں نو سو چونتیس کنال تھی، جس میں 2012ء کے دوران اضافہ ہوا اور یہ ایک ہزار سات سو سات کنال ہوگئی۔ ان کی زرعی آمدنی گزشتہ تین سالوں کے دوران باون لاکھ، پچاس لاکھ اور تراسی لاکھ تھی، اور انہوں نے زرعی ٹیکس کی مد میں ان برسوں میں سات لاکھ پچاس ہزار روپے، سات لاکھ تیس ہزار روپے اور ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے کی رقم جمع کرائی۔ وہ اپنے ذاتی مکان میں رہتے ہیں، جو انہیں ان کی والدہ کی طرف سے ملا ہے۔
شہباز شریف کی آمدنی 2010ء کے دوران اکتیس لاکھ روپے رہی، جو اضافے کے بعد 2001ء میں ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ روپے اور 2012ء میں ایک کروڑ اننچاس لاکھ روپے ہوگئی۔انہوں نے دولاکھ پچاس ہزار روپے، بائیس لاکھ روپےاور چھبیس لاکھ روپےبطور انکم ٹیکس ادا کیے۔ ان کی زرعی آمدنی 867 کنال سے 2010ء کے دوران پینتس لاکھ روپے رہی۔
شہباز شریف کی جاگیر میں 2011ء کے دوران کمی واقع ہوئی اور یہ چھ سو ستتر کنال رہ گئی۔ ان کی زرعی آمدنی 2011ء میں ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ روپے اور 2012ء میں ایک کروڑ چونسٹھ لاکھ روپے رہی۔ تین سالوں میں انہوں نے زرعی ٹیکس کی مد میں چار لاکھ چالیس ہزار روپے، ستائیس لاکھ روپے اور پچیس لاکھ روپے جمع کرائے۔
شہباز شریف بارہ کروڑ روپے کی مالیت کے گھر میں رہتے ہیں جو ان کی شریک حیات کے نام ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 2010ء میں اٹھارہ لاکھ روپے ٹیکس جمع کرایا تھا، جس وقت ان کی آمدنی ایک کروڑ دس لاکھ روپے تھی، لیکن 2011ء میں ان کی آمدنی بڑھ کر دوگنی یعنی دو کروڑ پینتس لاکھ روپے ہوگئی، اور انہوں نے تین لاکھ بیس ہزار روپے انکم ٹیکس جمع کرایا۔ 2012ء کے دوران ان کی آمدنی کم ہوکر ایک کروڑ اکسٹھ لاکھ رہ گئی اور انہوں نے دو لاکھ ستر ہزار ٹیکس جمع کرایا۔
ان کی زرعی آمدنی 931 کنال کی زمین سے 2010ء کے دوران سات لاکھ پچاس ہزار روپے رہی اور 2011ء میں تیئس لاکھ روپے ۔ 2012ء کے دوران یہ بڑھ کر پینتس لاکھ روپے ہوگئی جب ان کے قبضہ میں زرعی زمین میں اضافہ ہوا اور وہ 1346 کنال تک جاپہنچی۔ انہوں نے اکسٹھ ہزار پانچ سو روپے، دولاکھ نوے ہزار روپے ٹیکس کی مد میں جمع کرائے۔
عمران خان کے پاس فارن کرنسی کے چار اکاؤنٹس ہیں، جس میں سے ایک کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس میں پچاس ہزار ڈالرز جمع ہیں۔ 2012ء میں ظاہر کی گئی ان کے مکمل اثاثوں کی مالیت تین کروڑ تھی۔
سابق فوجی حکمران ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف جن کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے تھے، نے اپنے اثاثہ جات ظاہر کیے ان کی تفصیل کے مطابق بیرون ملک ان کے اثاثوں کی مالیت چھ لاکھ پچاس ہزار روپے ہے، لیکن یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سال میں اس میں اضافہ ہوا اور ان کی مالیت بارہ کروڑ نوّے لاکھ ہوگئی۔
پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے چیف مخدوم امین فہیم نے 2010ء میں گیارہ لاکھ ستر ہزار روپے، 2011ء میں بارہ لاکھ پچاس ہزار روپے اور 2012ء میں تیرہ لاکھ پچاس ہزار روپے انکم ٹیکس جمع کرایا، جبکہ ان کی آمدنی بالترتیب ایک کروڑ ایک لاکھ روپے، ایک کروڑ چودہ لاکھ روپے اور ایک کروڑ چوبیس لاکھ روپے تھی۔ انہوں نے اپنا ذریعہ آمدنی اپنی تنخواہ اور کرائے کو ظاہر کیا ہے۔
ان کی ملکیت میں زرعی زمین کی پیماؕئش تین سو ساٹھ ایکڑز ہے، اور ان کی زرعی آمدنی چون لاکھ ساٹھ ہزار روپے، چون لاکھ پانچ ہزار روپے اور اکتالیس لاکھ بیس ہزار روپے رہی۔ انہوں نے سات لاکھ چالیس ہزار روپے، سات لاکھ بیس ہزار روپے اور پانچ لاکھ بیس ہزار روپے کی رقم زرعی ٹیکس کی مد میں جمع کرائی۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی ملکیت میں اثاثوں کی مالیت 2011ء میں چار کروڑ سینتیس لاکھ روپے تھی جو 2012ء میں بڑھ کر بارہ کروڑ ساٹھ لاکھ ہوگئی۔ انہوں نے بالترتیب 2010ء ، 2011ء اور 2012ء میں پچپن ہزار تین سو ستائیس روپے، چھیالیس ہزار آٹھ سو بتیس روپے اور اٹھاون ہزار آٹھ سو باسٹھ روپے انکم ٹیکس جمع کرایا۔
جمیعت علمائے اسلام-ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ تین سالوں کے دوران ستائیس ہزار دو سو آٹھ روپے، چھیالیس ہزار آٹھ سو بتیس روپے اور ستاون ہزار چونسٹھ روپے انکم ٹیکس اپنی تنخواہ میں سے جمع کرایا۔ انہوں نے اپنی جائیداد کی مالیت سینتالیس لاکھ روپے ظاہر کی، اس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے دو گھر اور پانچ کنال کا ایک پلاٹ بھی شامل ہے۔
پیپلزپارٹی کے سید خورشید شاہ جنہیں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا لیڈر نامزد کیا گیا ہے، ان کے اثاثوں کی مالیت ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے بتائی گئی ہے۔












لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں