پاکستان

امن کے نام پر

جب امن کی بحالی کے لیے مذاکرات جاری ہیں، تو پھر عسکریت پسندوں کے حملوں کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔

یہ اعداد و شمار ناصرف خیبر پختونخوا کے لیے تعجب خیز ہیں، جہاں پر یکم جنوری 2014ء کے بعد سے دہشت گرد انہ حملوں کی شدت دیکھنے میں آرہی ہے، لیکن یہ اس کے دارالحکومت پشاور کے لیے بھی حیران کن ہیں۔

شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں نئے سال کی صبح سے اب تک دہشت گرد حملوں میں کل 129 اموات ہوچکی ہیں، ان میں 80 عام شہری تھے، جبکہ ان 129 ہلاکتوں میں سے 75 صرف پشاور شہر میں ہوئی تھیں۔

دسمبر سے اب تک کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا ہے۔ پشاور کے راستے افغانستان کو جانے والی نیٹو سپلائی بھی معطل ہے اور قبائلی خطے کے کسی بھی حصے میں اس وقت کوئی فوجی آپریشن جاری نہیں ہے۔

ان سب کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کی منتخب کردہ چار رکنی کمیٹی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سیاسی شوریٰ کی جانب سے نامزدہ کردہ ٹیم کے درمیان امن مذاکرات بھی جاری ہیں۔

لہٰذا ان حملوں کے لیے اب کوئی سبب موجود نہیں، جیسا کہ کچھ سیاسی جماعتیں جن میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف شامل ہے، ان پُرتشدد کارروائیوں کے لیے جس قدر جواز بیان کرتی تھیں، وہ تمام جواز اس وقت موجود نہیں ہیں۔

لیکن جب کہ ان حملوں کے لیے اب کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا، ان حملوں کی تعداد میں اضافے کے لیے کم از کم کس قسم کی وضاحت کی جاسکتی ہے، جس میں بہرحال کسی کمی کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے۔

اختلافِ رائے:

یہاں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ اب تک ٹی ٹی پی نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ :

اے: یہ متنشر گروہ ہیں اور انہیں امن سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

بی: اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے ایک تیسری قوت موجود ہے (اسے ملٹری اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پڑھا جائے) جو وزیرستان میں فوجی کارروائی کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اور

سی: پاکستان کی دشمن غیرملکی طاقتیں ہیں، جو ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔

یہاں بشمول ٹی ٹی پی لوگوں کا ایک اور گروپ بھی ہے، جو تشدد اور دہشت گردانہ حملوں کو جائز قرار دینے کے لیے یہ دلیل دیتے ہیں کہ جب تک جنگ بندی نہیں ہوجاتی، اس وقت تک یہ حملے اور جوابی حملے جاری رہیں گے۔

ٹی ٹی پی زور دیتی ہے کہ وہ یہ کارروائیاں اپنے دفاع میں کررہی ہے۔ لیکن قطع نظر اس کے کہ اس دلیل سے کون اتفاق کرتا ہے یا نہیں، اسے قبول نہیں کیا جاسکتا کہ ٹی ٹی پی جب ایک حملے کی ذمہ داری قبول کرلیتی ہے، مثال کے طور پر جمعرات کو کراچی میں کیے گئے ایک حملے کے بارے میں کیا گیا۔

لیکن ان حملوں کے بارے میں کیا کہا جائے جنہیں اب تک کسی کی جانب سے قبول نہیں کیا گیا یا کسی گروہ نے اس کے لیے دعویٰ نہیں کیا۔

سیکیورٹی اہلکار دہشت گردوں سے باخبر رہنے یا دہشت گرد حملے کو روکنے کے لیے پیش بندی میں سست ہوسکتے ہیں، لیکن ان کے لیے معلومات میں کمی نہیں ہوسکتی جب یہ دہشت گرد حملے میں دہشت گرد گروہ کے گٹھ جوڑ یا ان کے ملؤث ہونے کے بارے میں ہو۔

پکڑی جانے والی انٹیلی جنس، زمینی اور انسانی انٹیلی جنس اور فارنسک شواہد، ایسی ہزاروں شہادتیں حملوں میں ملوث گروہوں کے بارے میں موجود ہیں، ان میں سے کچھ ایسے حملوں کے بارے میں بھی ہیں، جنہیں ٹی ٹی پی نے قبول نہیں کیا۔

آخر کیوں قوم اور سیاسی قیادت الجھن میں مبتلاہے؟ کیا ان انٹیلی جنس رپورٹوں کو سیاسی قیادت کے سامنے نہیں رکھا گیا؟

پھر کس کے سامنے پیش کی گئیں، اور کس سطح پر ؟ اور کیا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے سیاسی فیصلوں میں ان انٹیلی جنس رپورٹوں اور تجزیوں کا کوئی کردار بھی ہے؟

اگر سیاسی قیادت کو ان رپورٹوں سے آگاہ نہیں کیا جارہا ہے تو یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے اور اس سے انہیں کو شہہ ملے گی جو ملک میں تیزی سے تباہی پھیلانا چاہتے ہیں۔

لیکن اگر انہیں ان رپورٹوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے اور وہ اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں یا تو ان انٹیلی جنس رپورٹوں کو قابل بھروسہ نہیں سمجھتے یا پھر فوجی آپریشن کے لیے عوامی دباؤ سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔

لیکن ایک تیسرا آپشن بھی ہے۔ یہ سیاستدان جانتے ہیں کہ زیادہ تر حملوں کے پیچھے کون ہے یا کون سا گروپ ہےلیکن وہ کسی کی جانب انگلی اُٹھا کر ماحول کو کشیدہ نہیں کرنا چاہتے کہ اس وقت امن عمل جاری ہے۔

یہ اس خاموشی کے لیے بنیادی وجہ ہے۔

ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ حکمرانی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے ہوا کے رُخ کی جانب اپنی توجہ اس جانب مرکوز کر رکھی ہے۔ جیسا کہ ایک اہلکار نے کہا کہ ’’کسی کو بھی اس میں دلچسپی نہیں کہ کون کیا کررہا ہے۔ہم یہاں امن کی بات کر رہے ہیں، اسٹوپڈ!‘‘