اوبامہ ایران کے خلاف نئی پابندیوں میں تاخیر چاہتے ہیں
واشنگٹن: امریکی حکام نے کل بروز منگل کو بتایا کہ اوبامہ انتظامیہ نے کانگریس پر زور دیا ہے کہ ایران کے خلاف نئی پابندیوں کو متعارف کرانے کے اپنے منصوبے کو اگلے چھ ماہ تک روک کر رکھے۔
جیسا کہ صدر بارک اوبامہ کے معاونین نے پابندیوں میں تاخیر کے لیے سینئر اراکین کانگریس سے رابطہ کیےہیں، انہوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ اب تنازعہ کے حوالے سے سفارتکاری کے لیے وقت میسر آیا ہے۔
صدر اوبامہ نے سان فرانسسکو میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ”بہت وسیع چیلنجز اب بھی موجود ہیں، لیکن ہم سفارتکاری کا دروازہ بند نہیں کرسکتے، اور عالمی مسائل کے پُرامن حل کو مسترد نہیں کرسکتے۔“
امریکی اور پانچ دیگر عالمی طاقتوں نے ایران کے ساتھ اس اختتامِ ہفتہ کو ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں تہران کی ایٹمی صلاحیتوں کو روکنے کی صورت میں امریکی پابندیوں کو واپس لینے کی بات کی گئی تھی، ان پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔
”اب یہ سب کے حق میں ہے۔یہ امریکا کے لیے بہتر ہے۔ یہ ہمارے اتحادیوں کے لیے بہتر ہے۔ یہ اسرائیل کے لیے بہتر ہےؕ۔“ یہ بات صدر اوبامہ نے اس تنقید کے ردّعمل میں کہی، جس میں کہا جارہا تھا کہ ایران کے ساتھ یہ معاہدہ اس خطے میں امریکا کے سب سے قریبی اتحادی اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گا۔
منگل کے روز امریکی میڈیا میں یہ بات رپورٹ کی گئی تھی کہ صدر اوبامہ نے اپنے سینئر معاونین کو کانگریس کے رہنماؤں کے پاس ایک پیغام کے ساتھ بھیجا تھا کہ اس مرحلے پر نئی پابندیاں سامنے لانے سے جنیوا میں طے پانے والے اس معاہدے کو نقصان پہنچے گا۔
یقین کیا جارہا ہے کہ یہ معاونین اراکین کانگریس سے کہیں گے کہ ان پابندیوں میں چھ مہینوں کی تاخیر کی جائے تاکہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کوروکنے کے لیے ایک طویل المعیاد معاہدے پر دباؤ ڈالا جاسکے۔
موجودہ معاہدے ایک عبوری انتظاہم ہے، اور 2014ء کے اواخر تک دونوں فریقین کو ایک مستقل حل تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔
اتحادی اراکین کانگریس کے ساتھ ایک اجلاس میں ان کے اس خوف کہ یہ معاہدہ ایران کو خفیہ طور پر اپنی جوہری عزائم کے حصول کی اجازت دے گا، کے جواب میں صدر اوبامہ نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات پر گہری نگاہ رکھیں گے۔
صدر اوبامہ نے اپنے دفتر واپس آنے کے بعد اس بات کو دہرایا کہ ”یوں تو ایران کے بارے میں بہت سی تندوتیز باتیں کی جارہی تھیں، لیکن اس کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لیے کوئی حقیقی منصوبہ موجود نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”اور اس طرح ہم نے اراکین کانگریس کی مدد سے ہم نے پابندیوں کا سب سے مشکل سیٹ تیار کیا اور اس لاگو بھی کیا، جسے چین اور روس بھی لاگو کرنے سے گریزاں تھے۔“
صدر اوبامہ نے کہا کہ اس کے نتیجے میں جینیوا میں ایک معاہدہ طے پایا، دنیا نے دیکھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو پہلی مرتبہ روکا گیا، بیس فیصد یورینیئم کی افزودگی کو صفر تک کمی کرنا،جو ایک بہت بڑا خطرہ تھا اور اس کو فوری طور پر روک دیا گیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ وہ سفارتکاری کو جنگ پر ترجیح دیتے ہیں، اس لیے کہ وہ بہت بڑا عرصہ ایسے نوجوان امریکیوں کے ساتھ گزار چکے ہیں، جو جنگ میں زخمی ہوگئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ”میں ہر اس ذریعہ کو آزمانا چاہوں گا کہ جس سے میں ان معاملات کو فوجی تصادم کا سہارا لیے بغیر حل کیا جاسکے۔“