عام آدمی پارٹی کے انتخابی نشان 'جھاڑو' نے جھاڑو پھیر دی

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2013
ایک نوآموز سیاسی جماعت نے ریاستی انتخابات میں کانگریس کو شکست ہی نہیں دی، بلکہ بی جے پی سے مکمل فتح بھی چھین لی۔ —. فوٹو اے ایف پی
ایک نوآموز سیاسی جماعت نے ریاستی انتخابات میں کانگریس کو شکست ہی نہیں دی، بلکہ بی جے پی سے مکمل فتح بھی چھین لی۔ —. فوٹو اے ایف پی
عام آدمی پارٹی کے کارکن فتح کا جشن مناتے ہوئے۔ —. فوٹو اے ایف پی
عام آدمی پارٹی کے کارکن فتح کا جشن مناتے ہوئے۔ —. فوٹو اے ایف پی
عام آدمی پارٹی کے کنوینیر اروند کجریوال حمایتیوں کے نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب دے رہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
عام آدمی پارٹی کے کنوینیر اروند کجریوال حمایتیوں کے نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب دے رہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

نئی دہلی: کل اتوار کی رات کو وسطی دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ہیڈکوارٹرز کے باہر ہاکرز پاپڑ فروخت کررہے تھے، دوسری جانب پورے ماحول سے الگ تھلگ اور بیزار سے دکھائی دینے والے پولیس اہلکار اپنی گاڑیوں میں سے جھانک رہے تھے، اور جذباتی نوجوانوں کا ایک ہجوم ہندوستان کی آزادی کے موقع پر لکھے گئے گیت گارہا تھا۔

ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی دہلی میں پہلی شاندار فتح، طبقات اور ذات پات کی رکاوٹوں سے بالاترہے، ناصرف کانگریس مکمل شکست سے دوچار ہوئی بلکہ بی جے پی سے بھی مکمل فتح چھین لی، جس سے ہندوستان بھر میں ایک نئی سیاسی بحث نے جنم لیا ہے۔لیکن عام آدمی پارٹی کی اس کامیابی کو کانگریس کی حکومتی بد انتظامی اور بدعنوانی کے خلاف لوگوں کے جذبات کا اُبال قرار دینااس کے پس پردہ مکمل حقائق کو بیان نہیں کرتا ہے، بلکہ عام آدمی پارٹی کی کامیابی کے پیچھے تبدیلی کے لیے مل کر آگے بڑھنے کا جذبہ، سخت محنت کی خواہش اور کچھ سرد حکمت عملی شامل ہے۔

گزشتہ پندرہ برسوں سے ریاست دہلی پر حکومت کرنے والی چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا، تاہم انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔

پچیس برس کے ایک انجینئر اور عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے سرگرم رکن سیشان پارٹک نے برطانوی اخبار گارڈین کے نمائندے کو بتایا کہ ”جو کچھ ہم نے کیا ہے یہ اس ملک میں سب سے بہتر ہے۔ یہ انقلاب ہے جو تشدد کے بغیر آیا ہے۔“

سیشان کا یہ دعویٰ مبالغہ آمیز ہے، لیکن مکمل طور پر بلاجواز بھی نہیں ہے۔ دہلی اور تین دیگر ہندوستانی ریاستوں میں انتخابات کے حالیہ نتائج جو اتوار کو جاری کیے گئے، ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں تبدیلی اب سر پر آن پہنچی ہے۔ اس لیے کہ عام انتخابات اب چھ مہینے سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے۔

اتوار کی رات عام آدمی پارٹی کے امیدوار اور حمایتی اس فتح کا جشن منارہے تھے، جسے ان کے رہنما پینتالیس برس کے سابق ٹیکس انسپکٹر اروند کرجیوال نے ”تاریخی فتح“ سے تعبیر کیا تھا۔

دہلی اسمبلی کی کل ستّر نشستوں میں سے بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اکتیس، عام آدمی پارٹی کو اٹھائیس اور کانگریس کو صرف آٹھ نشستیں ملی ہیں۔ دیگر جماعتوں کو تین نشستیں مل سکی ہیں۔ فی الحال ریاست دہلی کی حکومت بنانے کے لیے لازمی اکثریت کسی بھی پارٹی کے پاس نہیں ہے۔

بی بی سی ہندی کے پرمود جوشی لکھتے ہیں کہ دنیا کے بعض ممالک میں عام آدمی پارٹی کی طرز کی سیاسی جماعتیں تشکیل پاتی رہی ہیں، مثلاً امریکہ میں ایک ٹی پارٹی بنی تھی۔ عام آدمی پارٹی درحقیقت شہروں کے متوسط ​​طبقے اور نوجوانوں کا ایک تصور ہے جو روایتی سیاست سے ناراض ہیں یا اس سے بیزار ہوگئے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے کوئی دوررس منصوبہ نہیں بنایا ہوا ہے اور نہ ہی مناسب سیاسی تنظیم پر اس بنیاد رکھی ہے۔

پرمود جوشی کے مطابق ہندوستان کا متوسط ​​طبقہ اب نسبتاً بیدار نظر آتا ہے۔ ذات پات اور مذہبی نعروں کے ذریعے اس کو طویل عرصے تک استعمال کیا جا چکا ہے۔ جوشی کہتے ہیں کہ دہلی کے متوسط ​​طبقہ نے عام آدمی پارٹی پر اعتماد کیا ہے، یہ پارٹی ان کے بھروسے پر کس طرح پورا اُترتی ہے ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

مبصرین اس انتخابات کو اگلے سال موسم بہار کے اواخر میں منعقد ہونے والے انتخابات کا سیمی فائنل قرار دے رہے ہیں۔

انڈیا کے دوسرے بڑے تجارتی اخبار ”منٹ“ میں انیل پدمانابھان لکھتے ہیں ”یہی صورتحال اگلے سال بھی ظاہر ہوگی، اور یہ کانگریس کے لیے ایک تباہی ہے۔ یہ ایک حقیقی وارننگ ہے۔“

کانگریس پارٹی مرکزی حکومت میں اقتدار کی دو مدت پوری کرچکی ہے، اور بدعنوانی، ترقی میں سست رفتاری اور روزمرّہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی کے ساتھ اضافے کی وجہ سے اس کے خلاف لوگوں کے اندر بڑے پیمانے پر غصہ بڑھتا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں