بنگلہ دیش: ملا کی پھانسی کے بعد پرتشدد مظاہروں میں چار ہلاک

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2013
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی جانب سے نذر آتش کی جانے والی گاڑیاں۔ فوٹو اے ایف پی
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کی جانب سے نذر آتش کی جانے والی گاڑیاں۔ فوٹو اے ایف پی
عبدالقادر ملا کو پھانسی پھانسی دیے جانے کے بعد ملک بھر میں جماعت اسلامی کلے کارکنوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
عبدالقادر ملا کو پھانسی پھانسی دیے جانے کے بعد ملک بھر میں جماعت اسلامی کلے کارکنوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
عبدالقادر ملا کی یادگار تصویر۔ فائل فوٹو
عبدالقادر ملا کی یادگار تصویر۔ فائل فوٹو
ڈھاکا کی سینٹرل جیل کے باہر پولیس کا دستہ چوکس کھڑا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
ڈھاکا کی سینٹرل جیل کے باہر پولیس کا دستہ چوکس کھڑا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ڈھاکا: بنگلہ دیش میں اہم اسلامی رہنما عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد ملک بھر میں فسادات کی نئی لہر پھوٹ پڑی ہے اور پرتشدد واقعات میں کم از کم چار افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

بنگلہ دیش نے جمعرات کے روز جماعت اسلامی کے سینئر رہنما اور اپوزیشن لیڈر عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی تھی۔

نائب وزیر قانون قمرالاسلام نے اے ایف پی کو ملا کی سزائے موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملا کو دارالحکومت ڈھاکا کی ایک جیل میں رات 10 بجکر ایک منٹ پر پھانسی دی گئی۔

حسینہ واجد حکومت کی طرف سے 2010 میں قائم کیے گئے انٹر نیشنل کرائمز ٹرییونل نے ماہ فروری کے آغاز پر ایک مقدمے میں بری کرتے ہوئے پانچ مختلف مقدمات میں عبدالقادر ملا کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

عالمی سطح پر اس متنازع مانے جانے والے ٹرییونل کی سزا کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے عمر قید کو سزائے موت میں بدل دیا۔

عبدالقادر ملا پر 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کے دوران جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

ان پر ڈھاکا کے نواح میں واقع میرپور میں ریپ، قتل اور قتل عام سمیت 350 نہتے شہریوں کے قتل کا الزام تھا اور ان کو پراسیکیوٹر نے 'میرپور کے قصائی' کا نام دیا تھا۔

بنگلہ دیشی حکومت گزشتہ چند ماہ کے دوران جماعت اسلامی کے متعدد رہنماؤں کو 1971 کی تحریک آزادی میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائیں سنا چکی ہے۔

جمعہ کو ان فسادات میں دو مظاہرین اور حکمران عوامی لیگ کے دو حامی ہلاک ہو گئے۔

پولیس آفیشل کے مطابق جمعہ کو جماعت اسلامی کے کارکنوں نے ٹرین اسٹیشن کو بم دھماکے کی مدد سے آگ لگانے کے ساتھ ساتھ دکانوں کو آگ لگائی اور اہم ہائی وے بلاک کر دیے۔

موقع پر موجود اے ایف پی کے نامہ نگر کے مطابق یہ پرتشدد مظاہرے ڈھاکا میں واقع ملک کی سب سے بڑی سے بڑی مسجد کے قریب جمعہ کی نماز کے بعد شروع ہوئے جہاں جماعت کے کارکنوں نے بموں سے حملے کرنے کے ساتھ ساتھ کم از کم ایک درجن گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

پولیس نے مظاہرین کو نتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں فائر کیں جس سے ایک بچہ شدید زخمی ہو گیا۔

مقامی پولیس کے سربراہ انیس الرحمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کارکنوں نے جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنے والے ایک جج کے گھر کو بھی آگ لگانے کی کوشش کی۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پیٹرول کی مدد سے گھر کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی، اس موقع پر ہم نے انہیں منتشر کرنے کے لیے ربڑ کیا گولیاں فائر کیں لیکن اس سے کوئی بھی شخص زخمی نہیں ہوا۔

واشنگٹن میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان میری ہارف نے ایک بیان میں کہا کہ بنگلہ دیش انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اور تمام جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے ختلافات پرامن طریقے سے حل کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم مستقل حکام پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ ٹرائلز کو عالمی معیار کے مطابق آزادانہ اور شفاف رکھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم تمام جماعتوں اور ان کے حامیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ پرامن انداز میں خیالات کا اظہار کریں اور تشدد سے اجتناب کریں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون سمیت عالمی برادری کی جانب سے پھانسی کی بھرپور مخالفت کے باوجود حکومت نے پھانسی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

جماعت اسلامی نے اس پھانسی کو سیاسی قتل قرار دیتے ہوئے ملا کے خون کے ہر قطرے کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

ملا سمیت جماعت اسلامی کے پانچ ارکان کو فروری میں سزائیں سنائی گئی تھیں جس سے ملک میں آزادی کے بعد سب سے بدترین فسادات شروع ہو گئے، ان فسادات میں اب تک 230 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ حسینہ واجد کی حکومت کا کہنا ہے کہ 1971 میں تحریک آزادی کی جنگ میں پاکستانی فورسز اور جماعت رہنماؤں کی زیر قیادت ان کے حامیوں کے ہاتھوں 30 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد تین سے پانچ لاکھ تھی۔

بنگلہ دیش میں ایک تسلسل سے سزائے موت دیے جانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن ملا جنوری 2010 کے بعد تختہ دار پر چڑھائے جانے والی سب سے بڑی شخصیت ہیں۔

جنوری 2010 میں پانچ سابق فوجی افسران کو ملک کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان اور حسینہ کے والد کے قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں