پروفیسر شبیر شاہ کا قتل ایک وبا میں ہونے والی ہلاکتوں کی طرح ہے جو مزید آفتوں اور تباہیوں کو ہوا دیتی ہیں-

کچھ دن پیشتر مقتول دانشور کے ایک دوست نے اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا : "شبیر شاہ، ایک انسان دوست، عالم، تاریخ دان اور ایک سیکولر ڈیموکریٹ کو آج گجرات میں دہشتگردوں نے فقط اس لئے قتل کر دیا کیوں کہ ان کے نام کے آخر میں شاہ لگا تھا"-

سچ ہے، اس ملنسار استاد نے، خر دماغوں کے عتاب کو دعوت دینے کے لئے بہت کچھ کیا تھا- انہوں نے غریبی کی زنجیروں کو توڑا، انہوں نے اپنے گھر سے دور کوئٹہ اور مری جیسی جگہوں پر جا کر بچوں کی تعلیم جیسا بے اجر پیشہ اپنایا اور تاریخ اور سیاسیات کے مضامین میں تعلیمی امتیاز حاصل کیا، یہ دو مضامین جو ان کے نزدیک روایتوں سے بندھی اپنی کمیونٹی میں تیزی سے ہوتی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے ضروری تھے-

ان تمام چیزوں کو بھلا دیا جاتا اگر شبیر شاہ صرف اپنی ذاتی ترقی اور سکون کو ترجیح دیتے، لیکن انہوں نے اس کا بالکل الٹ راستہ اپنایا، انہوں نے سماجی تبدیلی کے لئے جدوجہد کا انتخاب کیا-

وہ ہمیشہ کھری بات کرتے اور انسانی مساوات کی خاطر لڑنے کو تیار رہتے، انہیں محروموں کے حقوق کے ایک نڈر وکیل اور پاکستان میں آگاہی کے خلاف برسرپیکار قوتوں کی مذمت کے طور پر جانا جاتا تھا-

لیکن انتہا پسندوں کی ہٹ لسٹ میں انسانیت کے خدمتگاروں اور سیکولر ڈیموکریٹس کا نام ابھی نہیں آیا- انکی باری شاید بعد میں آۓ اور ان کے بعد دانشوروں اور تاریخدانوں کی- جب تک پنجاب پولیس قاتلوں کو پکڑ نہیں لیتی اور اس علم دوست انسان کے قتل کے پیچھے چھپے مقاصد پر سے پردہ نہیں اٹھا لیتی تب تک ایک عام راۓ یہی ہوگی کہ انہیں ان کے نام کی بنا پر قتل کیا گیا-

ماضی میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب لوگوں کو مخصوص ناموں کی بنا پر قتل کر دیا گیا--- مثال کے طور پر، انسانی حقوق کے کمپینر جرار حسین کا پشاور میں بہیمانہ قتل، کراچی میں جسٹس مقبول باقر پر قاتلانہ حملہ- یہ سب دیکھ کر آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ کس قسم کی وبا ہے کہ ممتاز شخصیات کو ان کے ناموں اور وضع قطع کی بنا پر قتل کر دیا جاتا ہے-

واضح وجوہات کے پیش نظر، یہ واقعات مسلمانوں کے دو بڑے فرقوں کے درمیان تنازعہ کے پس منظر میں دیکھے جاتے ہیں، ان تنازعوں کے نتیجے میں بلوچستان، گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر حصّوں میں قتل و غارتگری اور ٹارگٹ کلنگ ہوتے رہے ہیں- اس کا حالیہ مظاہرہ راولپنڈی میں بھی ہوا- ایسا نہیں ہے کہ لوگ اس بڑھتے ہوۓ کئی رخی تنازعے کی سنگینی سے بےخبر ہیں-

پہلی بات تو یہ کہ مسلمانوں کے درمیان مختلف فرقوں کو تسلیم کرنے کی روایت کی خلاف ورزی کی گئی ہے، اور دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو آزادانہ کافر قرار دیا جا رہا ہے-

دوسرے بات یہ کہ، عسکریت پسندوں کی جانب سے دیے گۓ فتووں کے مطابق 'دوسرے' فرقوں کے مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیا جاۓ-

اور تیسرے اپنے مخالفین کے خلاف جنگ دوسرے ممالک مثَلاً سیریا تک پھیلا دی جاۓ، (اتفاق سے، ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکام ملک میں عسکریت پسندوں کے آزادانہ داخلے اور اخراج سے یا تو لاعلم ہیں یا پھر بےپرواہ)-

اسلام میں موجود صدیوں پرانے تنازعہ پر لکھی گئی لا تعداد کتابوں خصوصاً خالد احمد کی جامع کتاب، فرقہ وارانہ جنگ (sectarian war ) کے باوجود، حکومت اسے امن و امان کا مسلہ قرار دینے پر اٹل ہے- راولپنڈی واقعہ پر ان کا ردعمل حقیقت کا سامنا کرنے کی افسوسناک نااہلی کو ظاہر کرتا ہے-

حکومت، ذمہ داروں کو گرفتار کرنے اور اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے افسران کو پھٹکارنے پر ہی اکتفا کر رہی ہے- یہ سب ضروری ہے لیکن محض علامات سے نمٹنے سے مرض کا علاج ممکن نہیں- اس کے علاوہ، ایک انتہائی پولرائزڈ صورتحال میں، کسی بھی ایک گروہ کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی، بین الفرقی ہنگامہ آرائی کو ہوا دے گی-

تاہم، حکام کو نفرت انگیز تقریروں پر پابندی کی ضرورت محسوس کرنے کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے- ایسے کئی افراد کے خلاف مقدمے درج ہوئے ہیں جو فرقہ وارانہ آگ میں تیل ڈالتے رہے ہیں- امید کی جاتی ہے کہ ان مقدمات پر مطلوبہ جانفشانی اور استعداد کے ساتھ کام کیا جاۓ گا-

مذہبی عناصر حسب معمول اپنی دوغلی باتوں سے لوگوں کی توجہ بٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، کچھ ملک کے بیرونی حریفوں کو مورد الزام ٹھہرانا چاہتے ہیں جبکہ دیگر اس تنازعہ کی فرقہ وارانہ نوعیت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں-

وہ صرف اسی حد تک درست ہیں کہ فرقہ وارانہ تنازعہ کو مذہبی منظوری حاصل نہیں اور یہ کسی قسم کے اسلامی مقاصد کے لئے کارآمد نہیں ہے-

کوئی بھی تنازعہ کی فرقہ وارانہ نوعیت کو چیلنج نہیں کر سکتا جبکہ صاف ظاہر ہے کہ یہ ریاست میں حکمرانی کی سکیم اور بین الاقوامی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے یا اپنے لئے جگہ بنانے کا سیاسی مقابلہ ہے-

شیعہ-سنی محاظ آرائی کی سیاسی نوعیت کو جب تک واضح طور پر سمجھا نہیں جاۓ گا اس سے باہر نکلنے کا راستہ ممکن نہیں-

اس سیاست سے ناصرف پاکستان کے ایران اور سعودی عرب سے تعلقات متاثر ہورہے ہیں، بلکہ افغانستان میں القائدہ/طالبان کے عزائم اور اس سے پاکستانی سیاست کو لاحق چیلنج کے حوالے سے ہمارے نکتہ نظر پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے- ان کٹر عسکریت پسندوں کی شرایط پر کسی بھی قسم کے مذاکرات یا ڈیل فرقہ وارانہ ٹینشن کو بڑھاوا دے گا-

اسلام آباد کو یہ بھی سمجھنے کی ضروت ہے کہ مذہبی مدارس کو بلا رکاوٹ ملنے والی مالی اور دیگر امداد کے لئے انکی پالیسی اور شراکت فرقہ وارانہ خون ریزی کی وجہ ہے-

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ایسے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد ناگزیر ہیں جہاں سیاست عقائد کی تابع ہے- ایک نظریاتی ریاست میں، ناصرف مذہبی اقلیتیں بلکہ ریاستی مذہب کے اقلیتی فرقے بھی ہمیشہ کمزور ہی رہیں گے-

اگر وہ سب سے بڑے فرقے کو اکسانے کے لئے کچھ نہیں بھی کرتے تب بھی اقتصادی میدان اور سروسز میں انکی موجودگی اور اپنی شناخت کے لئے اپنی مرضی کے نام منتخب کرنے کا انکا حق، حسد، نفرت اور تنازعات کی آگ میں مزید ایندھن کا کام کرے گا-

جب تک عقائد پر مبنی سیاست کا خاتمہ نہیں ہوگا لوگوں کو ان کے ناموں کی وجہ سے قتل کرنے کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا- یہ کام اتنا آسان نہیں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید مشکل ہوتا جاۓ گا-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں