کاشغر: سنکیانگ میں مسلح تصادم، 16 افراد ہلاک
بیجنگ: چین کے مسلم اقلیتی شورش زدہ علاقے سنکیانگ میں پولیس سے ہونے والی مسلح جھڑپوں میں ہلکاروں سمیت کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے۔
کاشغر میں سلک روڈ کے علاقے شوفو کاؤنٹی میں رونما ہونے والے واقعے میں پولیس نے مشتبہ جرائم پیشہ عناصر کو پکڑنے کے لیے کارروائی کی جہاں ان پر مسلح ٹھگوں نے چھریوں اور دھماکا خیز مواد سے حملہ کر دیا۔
سنکیانگ حکومت کے خبر رساں ذرائع کے مطابق اتوار کو ہونے والی اس مسلح جھڑپ میں دو پولیس اہلکاروں اور 14 ٹھگوں سمیت 16 افراد ہلاک ہو گئے جبکہ پولیس نے دو مشتبہ ٹھگوں کو گرفتار بھی کر لیا۔
تاہم ایک سمندر پار دائیں بازو کے گروپ کے مطابق ایک گھر میں اقلیتی برادری کے کچھ افراد جمع تھے اور پولیس نے اس گھر میں گھس کر پہلے ان پر فائرنگ کر دی۔
عالمی اوئگر کانگریس کے ترجمان دلکت رکست نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے مارے جانے والے تمام افراد اوئگر ہیں جس میں 2 بچے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکام علاقے میں طاقت کا استعمال کر کے اوئگر کو ان کے جینے کے حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔
یہ واقعہ تیانن مین اسکوائر میں دو ماہ قبل پیش آنے والے واقعے کے بعد پیش آیا ہے جہاں پولیس کے مطابق تین اوئگر نے سیاحوں کے ہجوم میں گھس کر گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا تھا جس سے کم از کم دو افراد کو ہلاک اور 40 کو زخمی ہو گئے تھے
پولیس نے ان تین حملہ آوروں کو عثمان حسن، اس کی بیوی اور والدہ کی حیثیت سے شناخت کیا تھا۔
بیجنگ حکومت نے اسے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کا الزام اوئگرز پر عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے ذمے دار ترکستان اسلامی تحریک کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند ہیں۔
لیکن غیر ملکی مبصرین نے حملے کی نوعیت پر انگلیاں اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر علیحدگی پسند اس حملے میں ملوث ہوتے تو یہ اس ھد تک گیر منظم نہ ہوتا جبکہ یہ ایک ایسے علاقے میں ہوا ہے جہاں علیحدگی پسند غیر مستحکم ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہوا چن ینگ نے کہا ہے کہ حالیہ واقعے سے دہشت گروہ کے انسان مخالف اور غیر معاشرتی رویے کی عکاسی ہوئی ہے۔
انہوں نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی شیزوں سے عوامی حمایت حاصل نہیں ہو گی اور وہ ناکامی سے دوچار ہوں گے۔
اس سلسلے میں سب سے خطرناک فرقہ پرتشدد واقعات 2009 میں ارمکی کے علاقے میں ہوئے تھے جہاں کم از کم 200 افراد ہلاک اور 1600 سے زائد زخمی ہوئے تھے اور پولیس نے سینکڑوں افراد کو ھراست میں لے لیا تھا۔
جون میں پیش آنے والے ایک اور واقعے میں ترپان میں 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد پولیس نے جہاد کی ترغیب دینے پر 139 افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔
اگست میں یل ککی میں کیے انسداد دہشت گردی کے ایک آپریشن میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا تھا لیکن غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ اس دوران کم از کم 22 اوئگر ہلاک ہو گئے تھے۔
گزشتہ ماہ جاری میڈیا رپورٹس کے مطابق سنکیانگ میں 2012 میں 190 سے زائد دہشت گرد حملے کیے گئے اور یہ تعداد 2011 میں کیے گئے حملوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔