نصف بلوچستان تعلیم سے محروم

20 دسمبر 2013
کوئٹہ کے مرکز میں لڑکیوں کے ایک بڑے اسکول میں ٹوائلٹ موجود نہیں۔ فائل تصویر علی شاہ
کوئٹہ کے مرکز میں لڑکیوں کے ایک بڑے اسکول میں ٹوائلٹ موجود نہیں۔ فائل تصویر علی شاہ

بلوچستان میں جہاں نصف سے زائد آبادی تعلیم اور خواندگی سے دور ہیں وہیں بلوچستان کے بعض دوردراز علاقوں میں تو صرف دس فیصد آبادی ہی لکھ پڑھ سکتی ہے۔

یہ بات وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے تعلیم سردار محمد رضا بریچ نے تعلیم پر منعقدہ ایک فنکشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

بلوچستان پہلے ہی باقی صوبوں کے مقابلے میں کئی اہم سماجی عوامل کے لحاظ سے پسماندہ ہے اور مشیر جو ماہرِ تعلیم بھی ہیں نے صوبے کی دردناک تعلیمی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر کے مرکز میں موجود ایک گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول میں جہاں 2500 بچیاں پڑھتی ہیں وہاں ٹوائلٹ موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹوائلٹ نہ ہونے کی وجہ پانی کی شدید قلت ہے۔

' اس طرح سے آپ صوبے کے دوردراز علاقوں میں موجود لڑکے اور لڑکیوں کے اسکولوں کی حالتِ زار کا اندازہ لگاسکتے ہیں،' انہوں نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے تحت معلوم ہوا ہے کہ صوبے بھر میں 22,000 آبادیاں ہیں جہاں حکومت کی جانب سے قائم کردہ پرائمری ، مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد 12600 ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری اساتذہ کی تعداد 57000 ہے۔ ' ہمیں تعلیمی بحران پر قابو پانے کیلئے مزید 60000 اساتذہ کی ضرورت ہے،' سردار بریچ نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کے ہر کونے اور مقام پر موجود بچوں کو تعلیم دلوانے کیلئے فوری طور پر 10000 اسکول قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ۔

' امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی،' انہوں نے کہا۔ سردار بریچ نے کہا کہ صوبے کے پاس اتنے وسائل موجود نہیں کہ وہ اتنے سارے اسکول خود بناسکے اور اساتذہ بھرتی کرسکے۔

انہوں نے یہ بھی کہا صوبائی حکومت کے پاس وسائل کی شدید قلت ہے جبکہ وفاقی حکومت تعلیمی شعبے کی بہتری میں مدد پر تیار نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ محکمہ تعلیم خود انتظامی کاموں میں الجھا ہوا ہے اور تعلیم کی بہتری کیلئے کچھ نہیں کررہا۔

انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنسز کے صوبائی کو آرڈنیٹر ، نذر بریچ بھی اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے صوبے میں تعلیم کے زوال پر گفتگو کی۔

تبصرے (0) بند ہیں