اسلام آباد: انڈس ریور سسٹم نے گزشتہ روز منگل کو کہا کہ ارسا میں اراکین کے انتخاب کا طریقہ کار اور اس کی ساخت کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

ارسا نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے پانی و بجلی نے وفاق کے زیرانظام قبائلی علاقوں کو ارسا میں ایک رکن کے طور پر شمولیت کی تجویز پیش کی تھی، لیکن ادارے کی انتظامیہ اس معاملے پر خود سے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی۔

ارسا نے اب اس معاملے پر بات چیت کے لیے 26 دسمبر کو اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ منسوخ کردیا ہے۔

واٹر ریگولیٹر کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی سفارشات وزارتِ پانی و بجلی کے ذریعے ارسا کو موصول ہوگئی ہیں، لیکن ارسا کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ وفاق سے کسی ایڈیشنل رکن کی شمولیت کا فیصلہ کرے۔

ارسا کے ترجمان خالد ادریس رانا نے ڈان کو بتایا کہ ارارے کی موجودہ ساخت پارلیمنٹ کے 1992ء کے ایکٹ نمبر 22 سے منظور شدہ ہے اس میں تبدیلی بھی پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔

ارسا نے بجلی کی پیداوار کے لیے اپنے ذخائر سے پانی کا اخراج کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پانی کے اخراج میں کمی کی وجہ سالانہ کینال کی بندش ہے جو ایک معمولی عمل ہے اور ہر سال دسمبر کے آخر سے جنوری تک کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دسمبر سے جنوری تک پانی کے ذخائر میں کمی کا نحصار صوبائی منصوبوں پر ہے جس سے تمام متعلقہ اداروں جن میں واپڈا، نیشنل پاور کنٹرول سینٹر اور وزارتِ پانی و بجلی کو آگاہ کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ریگولیٹر نے پانی کا نظام اپنے اختیارات اور اس سے معلق 1992ء میں مقررکرے گئے ایکٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کررہی ہے۔

خیال رہے کہ پانی کے حوالے سے 1991ء کے معاہدے میں پہلی ہی توانائی کی پیداوار پر آپاشی کے لیے ذخائر کے کاموں کو ترجیحی دی گئی ہے۔

معاہدے کے مطابق سالانہ کینال کی بندش کے دوران ارسا بجلی کی پیداوار پر غور کیے بغیر دریائے سندھ میں صرف پینے کی غرض سے پانی کا اخراج کا کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں