مشرف ہسپتال میں داخل، عدالت کا ایک روزہ استثنیٰ

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2014
سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف —فوٹو اے ایف پی۔
سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف —فوٹو اے ایف پی۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ سابق صدر کے خلاف غداری کیس کی سماعت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع نیشنل لائبریری میں کر رہا ہے جس کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ سابق صدر کے خلاف غداری کیس کی سماعت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع نیشنل لائبریری میں کر رہا ہے جس کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

اسلام آباد سپریم کورٹ نے غداری کیس کیلئے سابق صدر پرویز مشرف کو عدالت میں حاضر ہونے پر ایک دن کا استثنیٰ دیدیا ہے۔

یہ چھوٹ مشرف کو آج صبح ان کی طبیعت بگڑجانے پر دی گئی ہے لیکن صرف آج ہی کیلئے ہے۔

اس سے قبل پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف جاری غداری کے مقدمے کی سماعت میں پیش ہونے کے عدالتی حکم کے بعد سماعت کے لیے روانگی کے دوران راستے میں اچانک طبیعت کی خرابی کے باعث مشرف کو راولپنڈی میں واقع آرمی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی منتقل کردیا گیا تھا۔

ڈی آئی جی سیکیورٹی جان محمد نے اس مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کی عدالت آتے ہوئے اچانک ارستے میں طبیعت خراب ہوئی ہے جس پر عدالتی ججز نے اعلان کیا کہ اس نئی پیش رفت کی روشنی میں آج کی کارروائی کا فیصلہ شام چار بجے کیا جائے گا۔ اور اب فیصلے کی رو سے وہ آج عدالت آنے سے مستثنیٰ قرار پائے ہیں۔

سابق صدر پرویز مشرف کی عدالت روانگی کے موقع پر فارم ہاؤس سے نیشنل لائبریری تک سخت سیکیورٹی کے انتظامات کئے گئے جب کہ پولیس اور رینجرز کی بھی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کی جانب سے کلیئرنگ کے بعد پرویز مشرف کو سخت سیکیورٹی کے حصار میں خصوصی عدالت کی طرف روانہ کیا گیاتھا۔، .

پرویز مشرف جب عدالت میں پیشی کے لیے روانہ ہوئے تو ان کے وی وی آئی پی پروٹوکول میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے اور عدالت تک راستے میں پولیس کے بھاری نفرری تعینات کیے گئے تھے۔

جمعرات کی صبح جب سماعت شروع ہوئی تو سابق صدر کے پیش نہ ہونے ہر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں آج جلد از جلد حاضر ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

سماعت کے آغاز میں سابق صدر کے وکلاء عدالت پہنچ گئے، جبکہ اس دوران مشرف کے فارم ہاؤس چک شہزاد سے عدالت تک کے راستے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

اس موقع پر سابق صدر کے وکلاء اور سرکاری وکیل اکرم شیخ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور اس دوران دونوں جانب سے ایک دوسرے کو دھمکیاں دی گئیں۔

یاد رہے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ سابق صدر کے خلاف غداری کیس کی سماعت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع نیشنل لائبریری میں کر رہا ہے جس کے اطراف سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

سیکیورٹی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مشرف کے وکیل انور منصور نے عدالتی کارروائی سے واک آؤٹ بھی کیا جس پرعدالت پر عدالتی کارروائی میں کچھ دیر کا وقفہ ہوا۔

انور منصور کا کہنا تھا کہ تھا کہ انہیں رات بھر سونے نہیں دیا گیا اور پوری رات ان کا دروازہ پیٹا جاتا رہا۔

مشرف کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے بتایا کہ پروسیکیوٹراکرم شیخ نے مجھے ابراہیم ستی کے ذریعے دھمکی دی۔

اس سے قبل گزشتہ روز بدھ کو ہونے والی سماعت میں سیکیورٹی خدشات کی بنا پر پرویز مشرف حاضری سے مستثنیٰ اور سماعت کو پانچ ہفتوں کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست کی گئی تھی، جس پر عدالت پرویز مشرف کو آج یعنی جمعرات کو ہر صورت میں پیش ہونےکا حکم دیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007ء کا فیصلہ بطور آرمی چیف لیا تھا چنانچہ ان کے خلاف مقدمہ صرف فوجی عدالت میں ہی چل سکتا ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر مشرف جمعرات کے روز عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ان کی گرفتاری کا حکم جاری کریں گے۔

کچھ دن پہلے ہی خود پرویزمشرف یہ کہہ چکے ہیں کہ غداری کے مقدمے میں انہیں فوجی حمایت حاصل ہے اور ان کے اوپر عائد الزامات سے پوری فوجی قیادت ناراض ہے۔

واضح رہے کہ نومبر 2007ء میں ایمرجنسی کا نفاذ کرنے سے متعلق مشرف کے اقدام پر غداری کا الزام عائد کیا گیا ہے، اور اگر انہیں اس کا مرتکب پایا گیا تو انہیں سزائے موت یا عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

جنرل مشرف مئی کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس آئے تھے، لیکن ان کی یہ واپسی ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ انہیں ان انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، اور ان پر اپنے عہدِ حکمرانی کے دوران جس کا 2008ء میں خاتمہ ہوگیا تھا، سنگین نوعیت کے مجرمانہ الزامات کا ایک سلسلہ شروع کردیا گیا۔

ان میں 2007ء کو ہوئے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام کے ساتھ ساتھ نواب اکبر بگٹی کی موت، لال مسجد میں موجود دہشت گردوں کے خلاف ایک مہلک کارروائی اور ججز کی نظربندی کے الزامات شامل ہیں۔

انہوں ان تمام مقدمات میں ضمانت دی جاچکی ہے، اور اصولی طور پر وہ ایک آزاد شخص ہیں، لیکن طالبان کی جانب سے انہیں دی جانے والی قتل کی دھمکیوں کی وجہ سے وہ سخت حفاظت میں رہتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Jan 02, 2014 10:05pm
انڈوں صاحب تو بہادر نکلے عدالت میں پیشی کی ڈر سے بیمار ھوگئے لیکن کب تک احر انکو ایک د‏ن‏ ‏تو‏‏ ‏‏ ‏عدالت‏ ‏پیش‏ ‏ھونا‏ ‏ھوگا‏ ‏مگر‏ ‏سنا‏ ‏ھے‏ ‏کہ‏ ‏ایک‏ ‏پرو‏ ‏امریکی‏ ‏اسلامی‏ ‏ملک‏ ‏کے‏ ‏شہزادے‏ ‏ائے‏ ‏ھیں‏ ‏تو‏ ‏پھر‏ ‏بیرون‏ ‏ملک‏ ‏علاج‏ ‏کا‏ ‏وقت‏ ‏بھی‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏موقعہ‏ ‏‏ ‏بھی‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏پاکستان‏ ‏کا‏ ‏دستور‏ ‏بھی‏ ‏ھے‏ ‏‏عدالتوں‏ ‏اور‏ ‏حکومت‏ ‏کی‏ ‏آزمائش‏ ‏کا‏ ‏وقتھے‏ ‏