بینظر انکم سپورٹ پروگرام کی تشہیر پر اربوں خرچ

05 جنوری 2014
ملکی معیشت پر سب سے زیادہ بھاری سال 2011-2012 کا ثابت ہوا جہاں اس منصوبے پر سب سے زیادہ رقم خرچ کی گئی۔ فائل فوٹو
ملکی معیشت پر سب سے زیادہ بھاری سال 2011-2012 کا ثابت ہوا جہاں اس منصوبے پر سب سے زیادہ رقم خرچ کی گئی۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومتی آڈیٹرز نے سابقہ حکومت کی جانب سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی تشہیر پر اربوں روپے خرچ کیے جانے کا انکشاف کرتے ہوئے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

پیپلز پارٹی حکومت کی جانب سے غریبوں کے لیے شروع کیے جانے والے اس منصوبے کی تشہیر پر 3.15 ارب روپے خرچ کیے گئے۔

پارلیمنٹ کی جانب سے منظوری کے بعد اکتوبر 2008 میں قیام کے ساتھ ہی اس وقت کی پروگرام کی منتظم سابق رکن اسمبلی فرزانہ راجہ نے صرف ایک سال 2008-2009 کے درمیان پروگرام کی تشہیر پر 93 ملین روپے خرچ کر ڈالے۔

سن 2009-2010 کے دوسرے مالی سال کے دوران اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اور نجی ٹی وی چینلز پر اشتہاری مہم کی مد میں 65 ملین سے زائد رقم پانی کی طرح بہا دی گئی۔

لیکن یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ اگلے مالی سال یعنی 2010-2011 میں پیپلز پارٹی حکومت نے حاتم طائی کی سخاوت کے مزید ریکارڈ توڑتے ہوئے اشتہاری اخراجات کی مد میں 83 کروڑ سے زائد رقم لٹا دی۔

اس حوالے سے ملکی معیشت پر سب سے زیادہ بھاری سال 2011-2012 کا ثابت ہوا جہاں اس منصوبے پر سب سے زیادہ رقم خرچ کی گئی اور 956 ملین روپے(97 کروڑ 60 لاکھ) کسی حکومتی ادارے کی جانب سے ایک مالی سال کے دوران کسی منصوبے کی تشہیر پر خرچ کی جانے والی سب سے بڑی رقم ثابت ہوئی۔

پیپلز پارٹی حکومت کے آخری سال بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہ تھی جہاں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اخبار کے صفحات اور قیمتی اوقات میں چینلز کی زینت بنا اور اس سال بھی غریبوں کے لیے دنیا کا بہترین پروگرام قرار دیے جانے والے اس منصوبے پر اشتہارات کی مد میں 609 ملین روپے کا خرچ آیا۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی موجودہ انتظامیہ کے سینئر آفیشل کا کہنا ہے کہ حالانکہ اس منصوبے کا مقصد ان گھرانوں کو وسائل کی فراہمی تھا جنہیں اپنے گزر بسر میں شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کرتے ہوئے امیر طبقے کی جیبیں بھری گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں آج تک کسی بھی ادارے کی جانب سے اشتہاری مہم پر اتنے بڑے پیمانے پر رقم خرچ کرنے کی مثال نہیں ملتی، صرف کسی منصوبے کی تشہیر پر اربوں روپے خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کی جارحانہ اشتہاری مہم کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس پروگرام کا مقصد لوگوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔(ایسا نہیں کہ اس سے قبل ہمارے حکمرانوں نے عوام الناس سے قربانی مانگنے سے قبل ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہو جیسا کہ مسلم لیگ ن کے سابقہ دور حکومت میں قرض اتارو ملک سنوارو کے نام سے اسکیم شروع کی گئی جس میں عوام سے ملکی قرض اتارنے کے لیے حکومت کی مدد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا)۔

مزید یہ کہ ان عوامی نمائندوں کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اس عوام الاؤنس کے سب سے زیادہ مستحق لوگ کون ہیں۔

محکمہ پریس انفارمیشن کے سینئر آفیشل نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات تحریری طور پر درج ہے کہ پروگرام کے لیے ایک مہنگی اشتہاری مہم کی گئی جہاں تھوڑی سی احتیاط اور کام کی بدولت ان مہنگے اشتہاری بلوں کے بغیر باآسانی کام ہو سکتا تھا جن کی ادائیگی پروگرام کے اختتام پر کی گئی۔

اس منصوبے پر اب تک 165 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں جس میں سے 85 فیصد ادائیگی حکومتی خزانے سے کی گئی، اس میں سے 15 سے 16 فیصد امداد کی مد میں ملنے والے پیسوں سے ادا کیے گئے جس کی حکومت پاکستان بعد میں سود سمیت ادائیگی کرے گی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون دان موجودہ قومی اسمبلی میں بتدریج اس منصوبے کے فنڈ میں بد انتظامی کا معاملہ اٹھاتے رہے ہیں جس کے جواب میں حکومتی اراکین کی جانب سے پارلیمنٹ کو شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کی یقین دہانی کرائی گئی۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر نے 2010-2011 اور 2011-2012 کی رپورٹ میں بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں غیر ضروری اخراجات اور بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی تھی اور یہ معاملہ تاحال قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی توجہ کا منتظر ہے۔

ن لیگ کا حصہ بننے والے پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر انور بیگ اس پروگرام کے موجودہ سربراہ ہیں۔ میڈیا کو دیے گئے اپنے مختلف بیانات میں وہ سابقہ انتظامیہ کی زیر نگرانی منصوبے کو ہونے والے مالی نقصان کی تصدیق کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام دستیاب فورمز پر منصوبے کی مکمل تحقیقات کا ارداہ رکھتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں