بنگلہ دیش کے پرتشدد انتخابات، 11 افراد ہلاک

شائع January 5, 2014
بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں ایک خاتون اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر رہی ہیں۔ فوٹو اے پی
بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں ایک خاتون اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر رہی ہیں۔ فوٹو اے پی

ڈھاکا: بنگلہ دیش کی تاریخ کے پرتشدد ترین انتخابات میں پولنگ کا سلسلہ جاری ہے جہاں اپوزیشن کی جانب سے بائیکاٹ کیے جانے کے بعد ہزاروں مظاہرین نے متعدد پولنگ اسٹیشنز کو آگ لگانے کے ساتھ ساتھ کئی جگہ سے بیلٹ پیپر چرا لیے ہیں۔

پولیس کے مطابق ہفتے کی رات سے اب تک کم از کم 11 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے انتخابات کو یکطرفہ مقابلہ قرار دیے جانے کے بعد نامعلوم افراد کی جانب سے 200 سے زائد پولنگ اسٹیشن نذر آتش کر دیے گئے ہیں۔

اس دوران اپوزیشن کا گڑھ قرار دیا جانے والا شمالی ضلع پرتشدد واقعات کا مرکز رہا اور یہاں پولیس اسٹیشن کی حفاظت پر مامور دو افراد کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

شمالی ضلع بوگرہ کے پولیس سربراہ نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیٹرول بم اور آتش گیر مادے سے لیس ہزاروں مظاہرین نے متعدد مقامات پر ہمارے اہلکاروں اور پولنگ اسٹیشنز پر حملے کیے۔

انہوں نے ہزاروں بیلٹ نذر آتش کیے جانے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ صورتحال انتہائی تشویشناک اور غیر مستحکم ہے۔

ہلاک ہونے والے دیگر افراد اپوزیشن کے کارکنان تھے جو پولیس کی گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے جبکہ ایک ٹرک پر پیٹرول بم حملے سے ڈرائیور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔

شمالی علاقے پرباتی پور کے پولیس سربراہ موکبل حسین نے بتایا کہ ہزاروں مظاہرین نے ہم پر بندوقوں اور چھوٹے بموں سے حملہ کیا جس کے بعد ہم ان پر فائر کھولنے پر مجبور ہو گئے۔

'یہ بھرپور منظم حملہ تھا، وہ کچھ بیلٹ پیپرز اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے ہمارے ہتھیار لینے کی بھی کوشش کی'۔ دارالحکومت ڈھاکا میں پولیس نے پولنگ اسٹیشنز پر دو پیٹرول بم حملوں کی تصدیق کی ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے میں 150 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں ہزاروں فوجی اور پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں لیکن وہ پرتشدد واقعات کے اس سلسلے کو روکنے میں ناکام ہے۔

حکمران جماعت عوامی لیگ نے مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش پارٹی پر پرتشدد واقعات کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے رہنما کو گھر میں نظر بند کر دیا ہے۔

حزب اختلاف انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے ملک بھر میں ہڑتال کرانے کے لیے کوشاں ہے جہاں موجودہ حالات کے پیش نظر حکام پہلے ہی حالیہ الیکشن تاریخ کے کم ترین ووٹنگ ٹرن آؤٹ کی تصدیق کر چکے ہیں۔

یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں سب سے کم ووٹنگ ٹرن آؤٹ 1996 کے عام انتخابات میں رہا تھا جہاں صرف 26 فیصد لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔

اے ایف پی کے نامہ نگار کے مطابق یہاں ووٹ کا نام و نشان تک نہیں ہے جبکہ ٹیلی ویژن سے نشر کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ایک اسٹیشن پر ابتدائی تین گھنٹوں کے دوران صرف ایک شخص ووٹ ڈالنے آیا۔

انتخابات کے نتائج کے حوالے سے کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہیں جہاں 300 میں سے 147 سیٹوں پر ووٹنگ ہو رہی ہے جبکہ بقیہ 153 سیٹوں پر عوامی لیگ یا ان کے اتحادیوں کو واضح برتری حاصل ہے۔

وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے کے بعد ووٹنگ کا انعقاد کرایا ہے۔

نائب وزیر قانون قمر الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا کہ انتخابات کی اصل روح کی کمی محسوس ہو رہی ہے لیکن آئین پر عمل درآمد کا تسلسل یقینی بنانے کے لیے یہ الیکشن بہت ضروری تھے۔

الیکشن میں حصہ نہ لینے والی 21 جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت نے ان انتخابات کو شرمناک مذاق قرار دیا ہے۔

ان کی رہنما خالدہ ضیا گزشتہ ایک ہفتے سے گھر میں نظر بند ہیں جہاں ڈھاکا میں واقع ان کے گھر کے باہر قانون نافذ کرنے والے کسی بھی خوشگوار سے نمٹنے کے لیے پولیس واٹر کینن اور دیگر ہتھیاروں سے لیس کھڑے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 24 جون 2025
کارٹون : 23 جون 2025