بنگلہ دیش میں متنازعہ الیکشنز، عوامی لیگ کی جیت
ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں اتوار کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے بعد اٹھارہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے الیکشنز کے بائیکاٹ کے بعد عوامی لیگ کو فتح حاصل ہوئی ہے۔
پولیس کے مطابق مشتعل ہجوم نے دوسو سے زائد پولنگ اسٹیشنز کو آگ لگادی ہے ، بیلٹ پیپرز لوٹے اور جلائے گئے ہیں اور پولیس نے قابو پانے کیلئے ان پر فائرنگ کی ہے۔
پولیس نے پولنگ اسٹیشنز کی حفاظت کے دوران دو مظاہرین کو تشدد کرکے ہلاک کردیا ہے جبکہ اپوزیشن سے وابستہ افراد اور مظاہرین کی اکثریت پر تشدد کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کی نظر سے اس کا متوقع نتیجہ چھپا ہوا نہ تھا۔ پولنگ سے بھی قبل پارلیمنٹ کی 300 میں سے 153 نشستوں پر حکومتی عوامی لیگ کے امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوچکے تھے۔
بقیہ 108 سیٹوں میں سے ابتک عوامی لیگ یا اس کی اتحادی جماعتوں نے 81 سیٹ حاصل کی ہیں جبکہ آزاد امیدواروں نے 27 سیٹوں پر فتح حاصل کی ہے۔
لیکن بنگلہ دیشی حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ( بی این پی) نے مقابلے کو ڈھونگ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے آفیشلز نے بھی کم ووٹوں کا اعتراف کیا ہے۔
حکومت کو اس وقت بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سے اب تک کے شدید ترین پرتشدد واقعات اور دھڑے بندی کا سامنا ہے۔
پولیس کے مطابق اب تک اٹھارہ افراد ہلاک ہوئے جبکہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ 22 افراد مارے گئے ہیں۔
' ہم نے لاتعداد پولنگ اسٹیشنز پر ہزاروں کے قریب مظاہرین کو دیکھا جو پیٹرول بم پھینک رہے تھے،' بنگلہ دیش کے شمالی ضلعے کے پولیس چیف سید ابو صائم نے کہا۔
' صورتحال بہت پیچیدہ ہے،' انہوں نے بتایا کہ ہزاروں کے قریب بیلٹ پیپرز جلادئیے گئے ہیں۔
ایک شہر پربتی پور میں پولیس پر پے درپے دیسی دھماکہ خیز مواد سے حملے ہوئے اور اس کے جواب میں پولیس نے سیدھی فائرنگ کی۔
مقامی پولیس چیف مقبول حسین نے کہا کہ یہ ایک منظم حملہ ہے۔
ڈھاکہ میں تین پولنگ اسٹیشنز پر پیٹرول بم پھینکے گئے۔
الیکشن کمیشن کے سیکریٹری محد صادق نے اے ایف پی کو بتایا کہ ملک بھر میں 18,000 میں سے 380 پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ شروع نہ ہوسکی۔
عوامی لیگ نے بی این پی کو پرتشدد واقعات کا ذمے دار ٹھہرایا جبکہ بعض اطلاعات کےمطابق اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا مجازی طور پر اب بھی نظر بند ہیں۔
واضح رہے کہ بی این پی سمیت چھوٹی بڑی بیس جماعتوں نے بھی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ حسینہ واجد ملک میں غیر جانبدار سیٹ اپ یعنی نگراں حکومت کے بعد ہی انتخابات کا اعلان کریں لیکن حسینہ نے اسے ماننے سے انکار کردیا تھا اور اس کے بعد ان جماعتوں نے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بی این پی نے ہفتے کے روز بھی عام ہڑتال کا اعلان کیا تھا جس میں اسکول، دفاتر اور کاروباری ادارے بند رہے تھے۔
اپوزیشن نے بدھ تک ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے چیف قاضی رقیب الدین نے اعتراف کیا کہ ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہی لیکن وزیرِ اطلاعات حسان الحق نے مقامی ٹی وی کو کہا کہ ٹرن آؤٹ ضروری نہیں، اہم یہ ہے کہ لوگ تشدد کے باوجود بھی ووٹ دینے گھروں سے نکلے۔
بی این پی کے نائب سربراہ فخرالاسلام عالمگیر نے کہا کہ ملک نے یہ قابلِ مضحکہ، بے معنی اور عالمی طور پر ناقابلِ قبول الیکشن کو مسترد کردیا ہے۔
ڈھاکہ کے ایک ووٹر انور حسین نے کہا کہ میں اصل میں ووٹ نہیں ڈالنا چاہتا تھا کیونکہ یہ باضابطہ الیکشن نہیں اور صرف حکومتی اتحاد کے امیدوار ہی اس میں شریک ہیں۔
بنگلہ دیش اس وقت دنیا میں سب سے ذیادہ آبادی والا آٹھواں بڑا ملک ہے لیکن اس کا طویل عرصہ سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔
اس انتخابات میں یورپ اور امریکہ نے اپنے آبزرور نہیں بھیجے ہیں لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں صورتحال مزید خراب بھی ہوسکتی ہے۔