ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں میں اتنی بار اڑچن آئی ہے کہ اس کے ختم ہونے کی وجہ بیان کرنا ایک ناگوار اور اکتا دینے والا کام لگتا ہے، کیونکہ اس کے فورا بعد ایک سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے- اور یہ ان کے تعلقات میں ایک دائمی اور نہ بدلنے والا عمل ہے-

2013 کا پورا سال دونوں ملکوں نے اس بحران کو سلجھانے کی کوششوں میں گذارا جو جنوری 2013 میں مبینہ طور پر کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف سرکٹی لاشوں کے ملنے پر شروع ہوا تھا، اور جیسا کہ ان واقعات میں ہمیشہ ہوتا ہے، مذاکرات کو دوبارہ سنجیدگی سے شروع کرنا ایک سست عمل تھا- ستمبر 2013 میں نوازشریف اور من موہن سنگھ کی نیو یارک میں ملاقات ہوئی-

دوٹوک بات چیت کا ایک بہترین موقع گنوا دیا گیا- من موہن سنگھ یہ بات نہیں سمجھ پائے کہ نوازشریف میں انہیں مفاہمت کا ایک سنجیدہ حمایتی مل سکتا تھا جس نے اس سے پہلے 1997ء کےانتخابات کے موقع پر بھی ہندوستان کے ساتھ دوستی کے رشتے کی بات کی تھی-

دونوں کی سیاسی مجبوریاں پھر آڑے آگئیں- ہندوستانی ترجمان نے کہا؛ "فیصلہ کیا گیا تھا کہ دوسرے مسائل پر پیش رفت کرنے سے پہلے سرحدوں پر امن کی صورت حال کو بہتر کرنا زیادہ ضروری ہے"؛ بالخصوص، "تجارتی مسائل" بھی-

نتیجے کے طور پر دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کو ملاقات کیلئے کہا گیا تاکہ "ایک جوائنٹ مکینزم تشکیل دیا جائے جس کا کام نہ صرف لائن آف کنٹرول پر ہونے والے واقعات کی چھان بین ہو بلکہ اس بات کی یقین دہانی کرنا بھی ہو کہ آیندہ تشدد کے ایسے واقعات دوبارہ نہیں ہونگے-"

ڈی جی ایم اوز کوآپس میں ملنے میں تین مہینے لگ گئے- اس سے پہلے ان کی ملاقات 1999ء میں کارگل کی جنگ کے درمیان ہوئی تھی- اس ملاقات میں ایسا کچھ نہیں ہوا جو وہ اپنی ہفتہ واری ٹیلی فونک گفتگو میں نہیں طے کرسکتے تھے- جیسے کہ "ایک ساتھ مل کر پیٹرولنگ"، سرحد پر کوئی غیرقانونی تنصیبات تعمیر نہ کی جائیں، مسائل کا حل مل جل کر اور یہ معاہدہ کہ، "موجودہ مکینزم کو ہمیشہ تازہ دم رکھا جائے"-

یہ تمام نکات ڈی جی ایم اوز نے مل کر طے نہیں کئے تھے؛ ان کی اپنی حکومتوں کی طرف سے ان کو یہ تمام ہدایات دی گئی تھیں-

ہندوستانی ذرائع کا کہنا ہے کہ تین مہینے کی تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی طرف سے تاریخ کا تعین کرنے میں ٹال مٹول ہورہی تھی- اس دوران میں، دونوں طرف لوگ بیکار نہیں بیٹھے تھے- پاکستان رینجرز اور انڈین بارڈر سیکیورٹی فورسز کے افسران 29 اکتوبر کو ملے تھے- وزیراعظم کے ایڈوائزر سرتاج عزیز کی ملاقات ہندوستانی وزیرخارجہ سلمان خورشید سے 12نومبر کو ہوئی لیکن، جنوری 2013ء سے پہلے پرانی صورت حال کو بحال کرنے کا بنیادی عزم نئی دہلی نے پورا نہیں کیا، جسکی ایک سے زیادہ وجوہات تھیں-

ان میں سے ایک وجہ انتخاب تھی- دوسری وجہ ممبئی میں 2008ء کے حملہ آورون کے مقدمے میں کسی پیش رفت کی کمی بھی تھی. مقدمہ کے جج کو کئی بار تبدیل کیا گیا جب کہ اس مقدمہ کا فیصلہ جلد سے جلد کرنا چاہئے تھا- اس طرح کے واقعات ہیں جو امن کی کوششوں کو پٹڑی سے اتار دیتے ہیں-

بہرحال، ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ رکاوٹ کی فوری وجہ حملے نہیں تھے- شرم الشیخ کا 2009ء کا مشترکہ سرکاری اعلامیہ، 2010ء میں تھپمفو کا اقرارنامہ، وزیرخارجہ حناربانی کھر اور ایس ایم کرشنا کے درمیان جولائی 2011ء میں ملاقات، اور وزراء اعظم کے درمیان اسی سال دو ملاقاتیں، کافی حد تک امن کوششوں کو راستے پر لے آئے-

جنوری 2013ء کے واقعہ کا شدید ردعمل ہوا کیونکہ اس نے لوگوں کو ماضی کی ایک اختلافات سے بھری یاد دلادی جس میں حملہ آوروں کو سزا دینے میں ناکامی پر غصہ بھی شامل تھا- اس کے باوجود، ہندوستان کا مذاکرات سے انکار اتنا ہی غیردانشمندانہ ہے جتنا کہ پاکستان کا مقدمے کا فیصلہ جلد سے جلد کرنے میں ناکامی کا- اس سلسلہ میں کسی طرح کی پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے-

اس سب کے باوجود، سخت طرزعمل سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہاں ویزا کے حصول میں نرمی اور مذاکرات اور تجارت کو لائن آف کنٹرول پر امن سے مشروط کیا جا سکتا ہے-

کشمیر میں امن کا عمل جو 2007ء میں معطل ہوگیا تھا اسے دوبارہ شروع کرنا بھی فائدہ مند ہوگا، اور سر کریک پر آخری مذاکرات میں تاخیر کا بھی کوئی فائدہ نہیں جو تقریباً طے ہی ہونیوالا ہے۔ اور، اسی طرح سیاچن بھی یقیناً، لیکن شائد اس کیلئے 2014ء کے انتخابات تک انتظارکرنا ہوگا- تقریباً ہر چیز کو اس وقت تک رکنا ہوگا-

دونوں ملکوں کے ماہی گیروں نے نئی دہلی میں یہ طے کیا کہ وہ اپنی اپنی سپریم کورٹ سے اپنے ساتھیوں کو رہا کرنے کی درخواست کرینگے- اس کا سہرا ایک این جی او، دی پاکستان-انڈیا فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کے سر جاتا ہے-

پنجاب کے چیف منسٹرشہبازشریف نے ہندوستان کا پانچ روزہ دورہ کرکے ایک مدبر سیاست دان جیسا قدم اٹھایا- انہوں نے اپنے ہندوستانی ہم منصب، پنجاب کے چیف منسٹر پرکاش سنگھ بادل سے امرتسر میں 15دسمبر کو ملاقات کی- دونوں نے اپنے عوام کو کھیلوں، ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون پر زور دیا- وہ اپنی اپنی وفاقی حکومتوں کو بھی اس سلسلے میں عمل کرنے کیلئے کہینگے-

مرکزی مسئلہ بہرحال نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے- ہندوستان پی پی پی کی حکومت کی کشمیر کے طے شدہ چار نکاتی ایجنڈے کے بارے میں ٹال مٹول کی حکمت عملی سے خوش نہیں تھا، اس پر پھر سے عمل درآمد ہونا چاہئے-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں