یار مصدق

17 جنوری 2014
مصدق سانول نے کبھی آواز اونچی نہیں کی بلکہ ہمیشہ سوچ کو پروان چڑھایا۔  فائل تصویر
مصدق سانول نے کبھی آواز اونچی نہیں کی بلکہ ہمیشہ سوچ کو پروان چڑھایا۔ فائل تصویر

جب آپ گوگل پر مصدق سانول کو سرچ کرتے ہیں تو ڈان ڈاٹ کام پر ان کے آرکائیو کی فہرست ٹویٹر، لنکڈ ان اور فیس بک پروفائلز کے درمیان ظاہر ہوتی ہے۔

ان کی تحریروں میں سے ایک حسن درس پر ایک تعزیتی مضمون بھی ہے، جو ایک سندھی شاعر اور مصدق کے قریبی ساتھی رہے اور وہ قدرے کم عمری میں انتقال کرگئے تھے۔ آج کی اس تعزیتی تحریر میں اس سے ذیاہ مشترک بات کوئی اور نہیں کہ پہلے مصدق نے حسن کیلئے مضمون لکھا تھا جبکہ آج ایک اور حسن مصدق کیلئے لکھ رہا ہے۔

چھ ماہ تک بات چیت کرنے کے بعد مصدق سے میری پہلی ملاقات شخصی طور پر اس وقت ہوئی جب وہ ہزارہ کمیونٹی پر ایک ڈاکیومینٹری کرنے کیلئے آئے تھے۔

انہوں نے میرے ٹرین سے وابستہ سفرنامے پڑھے تھے اور ان میں سے ایک لالہ موسیٰ کو بہت پسند سراہا تھا اور پھر وہ میری بیٹی کیلئے کچھ ایسے تحفے لائے جو آرٹ کے لحاظ سے تھے یعنی ایک تختی، چند قلم اور روشنائی کی ایک بوتل۔ چونکہ بیٹی آکسفورڈ کا نصاب پڑھتی ہے جو ایک مشترکہ صارفین کے کلچر پر زور دیتا ہے تو تختی نے ٹیب کی جگہ لے لی اور پھر میں نے اسے اسٹیل کے ٹرنک میں اپنی ان چیزوں کے ساتھ رکھ دیا جو میں نے پنجاب سے جمع کی تھیں۔

مری آباد، کوئٹہ میں تین دن ہم ساتھ رہے۔ میں نے احساس کیا کہ صوفی بندشوں اور سرحدوں سے آزادی کیوں ہوتےہیں۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے مصدق نے این سی اے سے گریجویشن کیا اور بہت وقت مغربی دنیا میں گزارا لیکن مصدق مقامی ہزارہ آبادی سےبھی ذیادہ ہزارہ تھا۔ دھیمی آواز میں گھلی ان کی خاکسار طبیعت میں ان کا عالمی تجربہ پوشیدہ تھا اور اسی نے ہزارہ متاثرین کا اعتماد جیتا۔ مری آباد میں دوبارہ دوپہر کو پہنچے اور انٹرویو دینے والے چند افراد تک جب مصدق کی معلومات پہنچی تو وہ صرف بے یقینی کے عالم میں یہی کہہ چکے کہ ' کیسے'؟

وہ چلتے دوران بولتے جاتے تھے اور جتنا بولتے میں ان سے اتنا ہی سیکھتا۔ مصدق ایک آرٹسٹ تھے اور جب آج کے دور میں چیزوں کی ظاہری چمک دمک اور پیشکش نے اصل شے کو بھی ماند کردیا ہے وہ حقیقی معنوں میں آرٹ کے قدر دان تھے۔

ان کی شہرت کا ایک واقعہ اس وقت سامنے آیا جب میں پاکستان کے شمالی علاقوں کا دورہ کررہا تھا۔ ایک غیر مقامی جوڑا شگر کا حسن دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ ان کا غیر ملکی برتاؤ برقرار رہا اور یہاں تک کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ پاکستانی لوک ( فوک) موسیقی سے ان کا لگاؤ اور تعارف جس شخص نے کرایا ہے وہ سفید بالوں والا مصدق ہے۔

ملک کے دیگر فنکاروں کی طرح مصدق کا بھی دوسروں کیلئے آزادی کی راہ ہموار کرنے میں ایک کردار رہا ہے۔ 1984 میں این سی اے جمعیت کے حملہ آوروں نے انہیں سزا چکھانے کی ٹھانی اور ان کی بائیں آنکھ پر چوٹ لگائی ، جس وہ زندگی بھر کیلئے ایک آنکھ سے معذور ہوگئے۔ ایک مرتبہ انہوں نے ہمیں بتایا جب جنرل ضیا الحق کی موت کی خبر این سی اے میں پہنچی تو چند طالبعلموں نے خوشیاں منائیں۔ اتنے میں ایک بوڑھا آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔

دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے۔۔۔۔ سجن وی مرجانا ۔

مصدق نے جواب دیا، لیکن اس ( ضیا) نے طے کرلیا تھا کہ کوئی سجن نہ بچ پائے۔

گزشتہ برس کے شروع میں ، مصدق نے بہادری سے اپنےچند قریبی دوستوں کو اپنے مرض کے بارے میں بتایا۔ اسی دوران ان کی سالگرہ پر ان کی خوش مزاجی عروج پر نظر آئی جب انہوں نے اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے لکھا:

آپ سب کا شکریہ! ایک ایسے ملک میں یہ ایک اچھی ہاف سینچری ہے جہاں ہمارے پر بہت کم اسکور کرنے والے بیٹسمین ہیں۔

بیرونِ ملک علاج کے باوجود مرض بہتر نہ ہوا۔ ڈاکٹروں نے انہیں فون سے دور رہنے کو کہا تھا لیکن ڈان ڈاٹ کام سے لگاؤ نے اسے بھی ویٹو کردیا۔ تین دن پہلے ہمارے ایک مشترکہ دوست نے بتایا کہ مصدق کو سی آئی سی یو شفٹ کیا گیا ہے۔ ' ہم وہاں گئے اور شیشے کے پار سے ہاتھ ہلایا اور اس کے جواب میں مصدق نے مسکراہٹ لوٹائی۔

امیدیں تو بہت بلند تھیں کہ وہ ٹھیک ہوجائیں گے لیکن جلد ہی وہ بھی ڈھے گئیں۔ پندرہ جنوری 2014 کی ایک ہولناک رات کو وہ بے ہوشی میں چلے گئے۔ اس کے بعد ہمارے ذہنوں میں رہ جانے والے الفاظ سے وہ واپس آگئے لیکن ایک دن کیلئے اور کی اگلی صبح ڈان اسٹاف کے ایک رکن نے فون کیا اور ایک گہرے صدمے کی خبر سنائی۔

ڈان کی ویب سائٹ پر تعزیتوں کے پیغامات امنڈ آئے اور اس ویب سائٹ کو مصدق نے بڑی محنت سے پروان چڑھایا تھا۔ لاہور میں ان کے دوست این سی اے کے گیٹ پر جمع ہوئے اور اسی راستے پر چلے جہاں وہ مصدق کے ساتھ کلاسوں میں جایا کرتے تھے۔

وہ موسیقی میں اپنی ذہانت یا صحافتی تجربے کی وجہ سے یاد نہیں رکھے جائیں گے بلکہ اس لئے بھی کہ وہ کسطرح جئے۔ ایک پرامن انسان کی طرح جس نے اپنی آواز بلند نہیں کی بلکہ سوچ کو آگے بڑھایا۔ انہیں چناب کنارے دفنایا جائے گا اور اور راوی کنارے کوئی پکارے گا۔

وطن دماں دے نال تے ذات جوگی

سانوں ساک قبیلڑا خویش کیہا

کونجاں وانگ ممولیاں دیس چھڈے

اساں ذات صفات تے بھیس کیہا

تبصرے (0) بند ہیں