جی ایچ کیو کے قریب طالبان کا حملہ، 13 ہلاک

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2014
ڈی سی او راولپنڈی ساجد ظفر نے بتایا کہ دھماکہ خودکش تھے جس میں دس کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
ڈی سی او راولپنڈی ساجد ظفر نے بتایا کہ دھماکہ خودکش تھے جس میں دس کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی اور اس کی شدت سے کئی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔۔ فوٹو اے پی
دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی اور اس کی شدت سے کئی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔۔ فوٹو اے پی

راولپنڈی: راولپنڈی میں فوجی ہیڈ کوارٹر کے قریب دھماکے میں کم از کم 13 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے جبکہ تحریک طالبان پاکستان نے دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں پیر کی صبح فوجی ہیڈکوارٹر کے قریب تھانہ اے آر بازار کے قریب دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب 13 ہوگئی ہے۔

دھماکے میں بیس کے قریب افراد زخمی بھی ہیں جن میں سے کچھ کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

ایس پی پوٹھوہار نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے ہلاک ہونے والوں میں چھ فوجی بھی شامل ہیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ آور ایک سائیکل پر سوار تھا۔

کچھ مقامی ٹی وی چینلز پر حملہ آور کی عمر 18 سے 20 سال کے درمیان بتائی جارہی ہے۔

دوسری جانب ڈی سی او راولپنڈی ساجد ظفر نے بتایا کہ دھماکہ خودکش حملہ آور نے کیا تھا، جس میں دس کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔

ہلاک ہونے والوں میں کالج کا طالبعلم بھی شامل ہے۔

دھماکے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ قبائلی علاقوں میں کی جانے والی فوجی کارروائیوں کا ایک ردعمل ہے۔

دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، جبکہ فوری طور پر ایمبولینس نے موقع پر پہنچ کر امدادی کارروائیاں شروع کردی۔

ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق دھماکے میں دس کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا، جس کی آواز دور دور تک سنی گئی اور اس کی شدت سے کئی عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔

دھماکے کے بعد زخمی افراد قریبی سی ایم ایچ ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں پر کچھ کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ راولپنڈی کا آر اے بازار پاک فوج کے جنرل ہیڈکواٹرز کے قریب حساس علاقے میں واقع ہے اور یہاں عام طور پر سیکیورٹی انتہائی سخت ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ اس علاقے میں کئی حاس اداروں کے دفاتر بھی واقع ہیں۔

اس واقعہ کے بعد سیکیورٹی کو مزید سخت کر کے تفتیش کا عمل شروع کرتے ہوئے ملحقہ علاقوں میں سرچ آپریشن بھی شروع کردیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اتوار کو بنوں میں سیکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس حملے میں 20 فوجی اہلکار ہلاک اور تقریباً تیس زخمی ہوگئے تھے، جبکہ واقعہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بنوں حملے کی ذمہ داری قبول کرتے کہا تھا کہ سیکیورٹی فورسز پر ان حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Syed Jan 20, 2014 06:59pm
اِن تمام دہشتگردانہ کارروائیوں کی ذمہ دار نواز، شہباز اور عمران خان کی طالبان نواز وفاقی اورصوبائی حکومتیں ہیں جو نہ تو اِن خون کے طالبوں کی نام لے لےکر پُرزور اورکھلی مزمت کرتی ہیں اور نہ ہی سیکیورٹی اداروں کو ان تمام دہشت گردوں اور اِن کے ہمدردوں حلقووں کے خلاف بلا تفریق بھرپور آپریشن کرنے کا حکم دیتی ہیں۔۔۔
Amir Nawaz Khan Jan 20, 2014 07:52pm
اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے اور اس میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی جیسی برائیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور سینکڑوں ہزاروں بار پوری انسانیت کاقتل کرنے والے اسلام کو ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟ خودکش حملوں کے تناظر میں تمام مکاتب فکر بشمول بریلوی، دیو بندی ، شیعہ ، اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے جید علماء پاکستان میں خود کش حملوں کو حرام قرار دے چکے ہیں ۔ دہشت گرد خود ساختہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور پاکستانی عوام پر اپنا سیاسی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی دہشت گردوں کو اجازت نہ دی جا سکتی ہے۔معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے اور جہاد نہ ہے۔۔ کسی بھی مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔ یہ فتنہ پروری اور خانہ جنگی ہے،اسے شرعی لحاظ سے محاربت و بغاوت، اجتماعی قتل انسانیت اور فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے۔ طالبان اور دوسری کالعدم دہشت گرد تنظیمیں گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔