شمالی وزیرستان میں فوجی کارروئی، 40 افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2014
تحصیل میر علی کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج نے گن شب ہیلی کاپٹرز کی مدد سے شدت پسندوں کی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تحصیل میر علی کے مختلف علاقوں میں پاکستانی فوج نے گن شب ہیلی کاپٹرز کی مدد سے شدت پسندوں کی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اسلام آباد: پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں طالبان شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر فوجی لڑاکا طیاروں کی بمباری سے کم سے کم 40 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔

فوجی ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان میں میرعلی کے علاقے جمزونی، محمد خیل، شیراتلہ، خٹکی قلعہ ہرمز، مسکی اور دیگر علاقوں میں پیر اور منگل کی درمیانی رات بمباری کا سلسلہ شروع کیا۔

یہ فضائی حملے ایسے وقت ہوئے جب پچھلے ایک ہفتے کے دوران ملک بھر میں شدت پسندوں کی ہلاکت خیز کارروائیوں کے بعد وزیر اعظم نواز شریف پر طالبان کے خلاف سخت ردعمل کے لیے دباؤ بڑھا ہے۔

ایک فوجی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'ان حملوں کی پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی اور پاکستان فضائیہ کو سیکورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے طلب کیا گیا'۔

ان ہلاکتوں کے حوالے سے اب تک سرکاری حکام نے کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن مقامی افراد مختلف اعدو شمار بیان کر رہے ہیں۔

قبائلی بزرگ ملک جان محمد نے میر علی سے بتایا کہ اب تک پندرہ افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ طالبان ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد ستائیس بتائی ہے، جس میں عام شہری بھی شامل ہیں۔

بمباری کے باعث ان علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، جبکہ مقامی آبادی نے نقل مکانی بھی شروع کر دی۔

فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا ہدف محض شدت پسندوں کے ٹھکانے ہیں تاہم مقامی افراد کے مطابق رات گئے شروع ہونے والی بمباری سے پہلے انہیں خبردار نہیں کیا گیا۔

میر علی کے گاؤں ایسوری کے رہائشی خیال زمان نے بتایا: ہم سب سو رہے تھے جب طیاروں نے بمباری شروع کر دی۔

اندھیرے کی وجہ سے ہمیں کچھ پتا نہیں کہ کیا ہوا ، زندہ بچ جانے والے پریشانی کے عالم میں اہل خانہ کے ہمراہ اپنے گھروں سے نکلے اور کھلے مقامات کی جانب چلے گئے'۔

ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جن ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ان میں پاکستان تحریک طالبان کے ایک اہم رہنما عدنان رشید کا گھر بھی شامل ہے۔

طالبان اور فوجی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ عدنان کے گھر کو نشانہ بنانے کے بعد انہیں میران شاہ کے بازار میں زندہ دیکھا گیا۔ فی الحال فوج نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

ذرائع کے مطابق علاقے میں کرفیو نافذ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو ہسپتال منتقل نہیں کیا جا سکا۔

خیال رہے کہ شمالی وزیرستان وفاق کے زیر انتظام سات قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے جسے شدت پسندوں کا مضبوط گڑھ سمھجا جاتا ہے۔

ان شدت پسندوں میں ناصرف پاکستانی طالبان، بلکہ القاعدہ اور دیگر جنگجو تنظیموں سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Syed Jan 21, 2014 03:30pm
اِن تمام دہشتگردانہ کارروائیوں کی ذمہ دار طالبان نواز وفاقی اورصوبائی حکومتیں ہیں جو نہ تو اِن خون کے طالبوں کی نام لے لےکر پُرزور اورکھلی مزمت کرتی ہیں اور نہ ہی سیکیورٹی اداروں کو ان تمام دہشت گردوں اور اِن کے ہمدرد حلقووں کے خلاف بلا تفریق بھرپور آپریشن کرنے کا حکم دیتی ہیں۔۔۔
Israr Muhammad Jan 21, 2014 10:34pm
ان‏ ‏قسم‏ ‏کے‏ ‏کاروائی‏ ‏سے‏ ‏یہ‏ ‏مطلب‏ ‏نکال‏ا ‏جاسکتا‏ ‏ھے‏ ‏کہ‏ ‏عام‏ ‏شہری‏ ‏اور‏ ‏حاص‏ ‏میں‏ ‏فرق‏‏ ‏ھوتاھےیا ‏کیا‏ ‏جاتا‏ ‏ھے‏اسکی‏ ‏مثال‏ ‏‏ ‏یہ‏‏ ‏دی‏ ‏جاسکتی‏ ‏ھے ‏کہ ‏بنوں‏ ‏اور‏ ‏اے‏ ‏ار‏ ‏بازار‏ ‏کا‏ ‏ردعمل‏‏ ‏فور‏آ ‏سامنے‏آجاتا ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏عام‏ ‏شہریوں‏ ‏پر‏ ‏حملوں‏ پرکوئی‏‏ ‏ردعمل‏ ‏ظاہر‏ ‏نہیں‏ ‏کیا‏ ‏جاتا‏‏ ‏ھے‏ ‏