مولانا سمیع الحق امن مذاکرات سے علیحدہ
اسلام آباد: جمعیت علماء اسلام اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے عمل سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ پیشرفت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب گزشتہ دو دنوں میں شمالی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز کے فضائی حملوں میں عسکریت پسندوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
انہیں گزشتہ سال دسمبر میں ایک کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) کے دوران وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مذاکرات کے آغاز میں کردار ادا کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔
نواز شریف کی حکومت نے ستمبر میں اس حوالے سے اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے طالبان کی قیادت سے رابطے کیے تھے۔
تاہم نومبر میں ان اقدامات کو اس وقت شدید ٹھیس پہنچی جب ایک امریکی ڈرون حملے میں اس وقت کے پاکستانی طالبان رہنما حکیم اللہ محسود مارے گئے۔
ایک اعلامیے میں انہوں نے کہا 'حکومت بظاہر سنجیدہ اور فکر مند نہیں لگتی۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ طاقت کے استعمال اور فوجی آپریشن سے گریز کیا جائے تاہم کل شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں بمباری شروع کردی گئی۔'
سیکورٹی فورسز کے یہ فضائی حملے بظاہر راولپنڈی اور بنوں دھماکوں کا ردعمل نظر آتے ہیں تاہم سیکورٹی افسران کا کہنا ہے کہ انہیں حساس اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر کیا گیا۔
تاہم سمیع الحق کا خیال ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ 'دونوں (حکومت اور طالبان) حالت جنگ میں ہیں۔ معصوم شہری اور فوجی ہلاک ہورہے ہیں۔ فوج آپریشن اس کا حل نہیں۔ اس کے بجائے ہمیں اپنی تمام تر قوتیں امن مذاکرات میں صرف کرنی چاہیئیں۔'
انہوں نے کہا کہ ایسی صورت حال میں میں خود کو اس 'خونی المیے' سے الگ کرنا چاہتا ہوں۔
مولانا سمیع نے کہا کہ نواز شریف کی جانب سے اشارہ ملنے کے بعد انہوں نے طالبان کی قیادت سے رابطہ کیا تھا تاہم 'حکومت کے غیر سنجیدہ رویے' نے انہیں اس عمل سے دور ہونے پر مجبور کردیا۔
خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے اتوار اور پیر کی کیے جانے والوں حملوں کے نتیجے میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 39 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تبصرے (1) بند ہیں