اسلام آباد: سابق فوجی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمہ کی سماعت خصوصی عدالت میں آج شروع ہوئی۔ پرویزمشرف کے وکیل انور منصور نے عدالت کی تشکیل اور مقدمہ درج کرانے کے طریقہ کار پر دلائل دیے۔ انہوں نے 1972ء کی دستور کمیٹی کی رپورٹ بھی خصوصی عدالت میں پیش کی۔

سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی آئین میں دی گئی تعریف کے مطابق انتظامیہ کے اختیار کا استعمال ڈویژن کے ذریعے نہیں بلکہ وفاقی کابینہ کے ذریعے ہوتا ہے۔ کابینہ کا اختیار کسی سیکرٹری کو نہیں دیا جاسکتا۔

سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے غداری کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ خصوصی عدالت کا قیام ایکٹ کے تحت ہی وفاقی حکومت نے کرنا ہے، اسپیشل کورٹ کے قیام کا فیصلہ کابینہ نے نہیں کیا جو قانونی تقاضہ تھا۔

جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت شروع کی تو سپیشل پروسیکیوٹر اکرم شیخ نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے غداری کے مقدمے کی تفتیش میں مداخلت نہیں کی، غداری کے مقدمے میں آئین پر عمل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو تفتیشی افسر کو عدالت میں پیش کرسکتے ہیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کیا گیا، عدالت نے اچھی شہرت اور ایماندار لوگوں پر مشتمل تفتیشی ٹیم بنانے کا حکم دیا۔

انور منصور نے کہا کہ وفاقی حکومت کی آئین میں دی گئی تعریف وزیراعظم اور کابینہ ہیں، انتظامیہ اختیار کا استعمال ڈویژن کے ذریعے نہیں بلکہ وفاقی کابینہ کے ذریعے ہوتا ہے، کابینہ کا اختیار کسی سیکرٹری کو نہیں دیا جا سکتا، انور منصور نے کہا کہ آئین میں لکھا ہوتا تو کسی سیکرٹری کو اختیار تفویض کیا جا سکتا تھا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ نوٹیفکیشن میں لکھا ہے وفاقی حکومت کی جانب سے سیکرٹری داخلہ کو شکایت دائر کرنے کا اختیار دیا جا رہا ہے۔ آرٹیکل 90ٹو میں لکھا ہے وزیراعظم اپنے اختیارات کسی وزیر کو تفویض کرسکتاہے۔ اس پر انور منصور نے دلیل دی کہ اس میں یہ نہیں لکھا کہ کابینہ اپنا اختیار کسی کو سونپ سکتی ہے، خصوصی عدالت کے قیام کا فیصلہ کابینہ نے نہیں کیا جو قانونی تقاضہ تھا۔

انور منصور نے کہا کہ سیکرٹری صرف ڈویژن کا سربراہ ہوتا ہے وزارت کا سربراہ وزیر ہوتا ہے۔ یہ معمول کا فوجداری مقدمہ نہیں بلکہ خصوصی نوعیت کا مقدمہ ہے، غداری کے مقدمے کے لیے ایگزیکٹیو اتھارٹی کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکرٹری داخلہ کو مجاز افسر اٹھارویں ترمیم سے پہلے مقرر کیا گیا تھا۔

اکرم شیخ نے کہا کہ تین نومبر کا اقدام بھی اٹھارویں ترمیم سےپہلے کا ہے۔

انور منصور نے جواب دیا کہ اس پر کارروائی کا آغاز تو اٹھارویں ترمیم کے بعد کیا گیا جس میں انتظامی اختیار کابینہ کو دیا گیا ہے، آئین میں ترمیم کے بعد پرانے طریقے پر نہیں چلا جاسکتا، خصوصی عدالت کی تشکیل کا نوٹیفکیشن اس شخص نے جاری کیا ہے جسے آئین یا قانون نے اختیار ہی نہیں دیا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ کہہ سکتے ہیں نوٹیفکیشن آرٹیکل 90 کے تحت جاری نہیں ہوا، لیکن استغاثہ کی دلیل ہے کاروائی کا آغاز وزیراعظم اور کابینہ نے ہی کیا۔

انور منصور نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ نے تین جولائی 2013 ءکو اقبال حیدر کی اپیل پر ہدایات جاری کیں، وفاقی حکومت پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کابیان سپریم کورٹ کے دباؤپر دیا، اس بیان کی روشنی میں تحقیقات مکمل ہونے پر کابینہ کے سامنے رکھی جانی تھی جو نہیں رکھی گئیں، اس بیان میں وفاقی حکومت نے صرف تحقیقات کی حد تک منظوری دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں