'انسداد دہشت گردی کے فنڈز سے پُرتعیش شاپنگ'
اسلام آباد: پاکستان میں سرکاری حکام انسداد دہشت گردی کے خفیہ فنڈز سے وزراء کے رشتہ داروں اور دورے پر آئی معزز شخصیات کے لیے تحائف، قیمتی قالین اور سونے کی جیولری خریدتے رہے ہیں۔
جمعرات کو اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں انکشافات نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے معاشی طور پر بدحال ملک میں اعلیٰ سطحی بدعنوانی کو ایک مرتبہ پر نمایاں کر دیا ہے۔
بدعنوانی کا یہ معاملہ وزارت خزانہ کے ماتحت نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل (این سی ایم سی) میں سامنے آیا۔
سن 2000 میں قائم کیے جانے والے اس سیل کا مقصد قومی سلامتی کے امور پر ملک بھر کے خفیہ اداروں، صوبائی و وفاقی حکومتوں کے درمیان موثر رابطہ پیدا کرنا تھا۔
دو ہزار ایک میں 11/9 کے بعد امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں نے طالبان اور القاعدہ سے جڑے شدت پسندوں سے لڑنے کے لیے پاکستان کو اربوں ڈالرز فراہم کیے تھے۔
انگریزی روزنامہ دی نیوز کے صحافی عمر چیمہ کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق 2013-2009 کے درمیان پاکستانی حکومت نے سیل کو ساڑھے بیالیس کروڑ روپے دیے۔
اس عرصے میں وزارت داخلہ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی رحمان ملک کے ماتحت تھی۔
گھڑیاں، قالینیں، سونا اور بکرے
اے ایف پی کو ملنے والی یہ دستاویزات انٹیلیجنس ذرائع کو ادائیگیوں، گاڑیوں کی روز مرہ دیکھ بھال اور ملازمین کے اوور ٹائم سے متعلق ہیں۔
ان دستاویزات میں امریکی اور برطانوی سفارت خانے کے حکام کو دیے جانے والے تحائف کے علاوہ صحافیوں کو ملنے والے پھولوں اور مٹھائیوں کی رسیدیں شامل ہیں۔
ان دستاویزات میں 'وزیر داخلہ کے بھانجے یا بھتیجے کی شادی کے لیے' ستر ہزار روپے مالیت کی دو گھڑیوں کی خریدای کی ایک رسید بھی موجود ہے۔
دستاویزات کے مطابق نومبر، 2012 روم میں انٹرپول کی ایک کانفرنس میں شرکت کے موقع پر رحمان ملک نے ایک ہار، لکڑیوں کی میزیں اور ایک ٹیبلٹ کمپیوٹر بطور تحفہ خریدے تھے۔
انسداد دہشت گردی کے خفیہ فنڈز کو گزشتہ سال سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے بیٹے کی شادی پر تین قالین خریدنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔
اسی طرح، ایک نامعلوم شخصیت کے لیے تین ہزار ڈالرز مالیت کا اکیس قیراط سونے کی جیولری بھی خریدی گئی۔ ایک اور موقع پر پندرہ سو ڈالرز مالیت کی خریدی گئی جیولری کی رسید بھی ان دستاویزات میں موجود ہے۔
دسمبر، 2012 میں یورپی یونین، ایران اور انڈیا سے آئے وفود اور مقامی حکام کے لیے اسلام آباد کے ایک دستکاری سٹور سے تئیس ہزار ڈالرز کی خریداری کی گئی۔
سب سے عجیب بات یہ کہ انسداد دہشت گردی کے فنڈ سے عید الحضیٰ کے موقع پر چار بکروں کی قربانی کے لیے آٹھ سو ڈالرز خرچ کیے گئے۔
دستاویزات کے مطابق، سال 2012 کے دوران غریبوں میں خیرات اور ایک مقامی صوفی بزرگ کے مزار کے لیے مٹھائیوں، پھولوں کی خریداری بھی انہیں فنڈز سے کی گئی۔
' آپ تو جانتے ہیں پاکستان کیسے چلتا ہے'
وزیر اعظم نواز شریف کی موجودہ حکومت نے 2013-2010 کے دوران محکمہ داخلہ کے اکاؤنٹس کے آڈٹ کا حکم دیا ہے۔
وزارت کے ترجمان دانیال گیلانی نے آڈٹ ہونے کی تصدیق کی تاہم انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ یہ کام کب تک مکمل ہو جائے گا۔
این سی ایم سی کے ڈائریکٹر جنرل طارق لودھی نے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال جون میں اقتدار سنبھالنے والی موجودہ حکومت نے کرپشن کے خاتمے اور اخراجات پر قابو پانے کے لیے سولہ وزارتوں میں خفیہ فنڈز ختم کر دیے تھے۔
مہنگی ٹائیوں اور اپنے ڈائی بالوں کی وجہ سے شہرت رکھنے والے سابق وزیر رحمان ملک نے ٹوئٹر پر اپنا بھرپور دفاع کرتے ہوئے خفیہ فنڈز کو استعمال کرنے کی تردید کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ' خفیہ فنڈ کبھی بھی ان کے کنٹرول میں نہیں تھا'۔
دستاویزات میں موجود کچھ رسیدوں پر ہاتھوں سے تحریر تھا کہ 'وزیر کی ہدایات پر'۔
جب رحمان ملک سے ان رسیدوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا 'آپ تو جانتے ہیں کہ پاکستان کیسے چلتا ہے'۔
'ان رسیدوں پر میرا نام ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں نے ذاتی طور پر ان ادائیگیوں کی اجازت دی'۔
ایک ٹوئیٹ میں ملک کا کہنا تھا کہ ان فنڈز کے ذریعے اہم شخصیات کی خاطر مدارت اور تحائف دینے کی روایت 'پچھلے پندرہ سالوں' سے جاری ہے۔
لیکن، 2002 سے 1999 تک وزارت داخلہ میں کام کرنے والے معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ این سی ایم سی فنڈز کا قیام اس مقصد کے لیے نہیں تھا۔
انہوں نے اے ایف پی سے گفتگو میں بتایا کہ فنڈز کا بنیادی مقصد صوبوں میں دفاتر بنانا، اور کمیونیکیشن آلات اور ڈیٹا کے تجزیہ پر خرچ کرنا تھا۔
خبر رپورٹ کرنے والے دی نیوز کے صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ اس معاملے سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری حکام نے کس طرح ملک کو درپیش دہشت گردی کے بحران کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا۔
'فنڈز کے استحصال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے رہنما کس طرح ایک سانحہ یا بحران کو اپنے فائدہ کے لیے استعمال کرتے ہیں'۔
سیکورٹی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ نے فنڈز کے بے دریغ استمعال پر 'افسوس' کا اظہار کرتے ہوئے کہا 'اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا'۔
'خفیہ فنڈز ختم کرنے سے بھی معاملات نہیں سدھریں گے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارے حکومتوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی محکمہ کو فنڈز ملنے کے بعد انہیں جلد از جلد خرچ کرنےکی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اگر آپ انہیں استعمال نہیں کر سکے تو اگلے سال کے بجٹ میں کٹوتی ہو جاتی ہے اور محمکہ کو ڈانٹ بھی پڑتی ہے'۔