راولپنڈی: سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت جاری غداری کے مقدمئے ی سماعت کے موقع پر ایک بار پھر عدالت میں حاضر نہیں ہوئے جس کے بعد عدالت 18 فروری کو انہیں عدالت طلب کر لیا ہے۔

خصوصی عدالت کے جج جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس مقدمے کی سماعت کررہا ہے، جس میں سابق صدر آج بھی پیش نہیں ہوسکے۔

سابق صدر کو غداری کے الزامات کا سامنا ہے جہاں انہوں نے 2007 میں بطور صدر ایمرجنسی نافذ کی تھی اور یہ کرم ثابت ہونے پر انہیں سزائے موت ہو سکتی ہے۔

جمعہ کی صبح جب سماعت شروع ہوئی تو پرویز مشرف کے وکلاء کی جانب سے عدلات میں درخواست دائر کی گئی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ متفرق درخواستوں کا فیصلہ آنے سے قبل کوئی اور ہدایت جاری نہیں کی جائیں۔

وکلاء کا درخواست میں مزید کہنا تھا کہ عدالت کے دائر کار اور ججوں کی جانبداری سے متعلق متفرق درخواستیں دائر کررکھی ہیں اور مشرف کے مقدمے کو ملٹری کورٹ میں منتقل کرنے سے متعلق بھی فیصلہ کیا جائے۔

سماعت کے دوران پرویزمشرف کے وارنٹ کی تعمیلی رپورٹ ایس پی کیپٹن ریٹائرڈمحمد الیاس نے خصوصی عدالت میں جمع کرائی۔

مشرف کے وکیل انور منصور نے اپنے دلائل میں کہا کہ مشرف کی بیرون ملک علاج کی درخواست کو بغیر سنے خارج کردیا گیا، ہم نے باضابطہ طریقہ کار کے تحت درخواست جمع کروائی تھی۔

انور منصور نے کہا کہ ہم پہلے ہی سے عدالت کے دائرہ اختیار پر بحث کر رہے ہیں، عدالت پہلے اپنے اختیارات کا تعین کرے، ججوں کی جانبداری سے متعلق بھی ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

انور منصور نے کہا کہ ابھِی تو دلائل مکمل نہیں ہوئے تھے کہ عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے، آئینی طریقے سے اور قانون کے مطابق عدالت کی تشکیل پر اعتراض کیا تھا، ضابطہ فوجداری سمیت کوئی دوسرا قانون اس مقدمے پر لاگو نہیں ہوسکتا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ گزشتہ 3 سماعتوں پر وکلاء صفائی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرچکے ہیں،عدالت تو آپ کو سننا چاہتی تھی۔

جسٹس فیصل عرب نے انور منصور سے کہا کہ اگر آپ سمجھتے تھے ان درخواستوں کا فیصلہ پہلے ہونا تھا تو آپ کو دلائل دینے چاہیے تھے۔

انور منصور کا کہنا تھا کہ اگر اختیار سماعت کا فیصلہ ہونے سے پہلے فرد جرم عائد کی گئی تو اس سے مشرف کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔

سابق صدر کے وکیل کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ذکر رتے ہوئے کہا کہ جسٹس افتخار نے خصوصی عدالت کے لیے وہ جج چنے جو اس معاملے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تعصب کی اس واضح مثال کے بعد ججوں کو اس مقدمہ سے الگ ہو جانا چاہیے۔

انور منصور نے کہا کہ پرویز مشرف کی عدالت میں حاضری بڑا مسئلہ نہیں اور یقین دہانی کرائی کہ سابق صدر اٹھارہ فروری کو پیش ہو جائیں گے۔

خیال رہے کہ مشرف کی لیگل ٹیم کے ایک رکن ایڈوکیٹ چوہدری فیصل حسین نے کچھ روز قبل میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ ” جنرل مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی جانب سے اکتیس جنوری کو جاری کیے جانے والے ان کے قابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ اور دس جنوری کے ایک حکم کو چیلنج کیا گیا ہے جس میں خصوصی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ غداری کے مقدمے میں کرمنل پروسیجر کوڈ کی شقیں بھی لاگو کی جائیں۔“

سابق صدر پرویز مشرف گزشتہ مہینے دو جنوری سے اب تک راولپنڈی کے آرمڈ فورسز آف کارڈایالوجی میں زیر علاج ہیں۔ انہیں اس ہسپتال میں اس وقت منتقل کیا گیا تھا جب حاضری کے حکم پر عدالت جاتے ہوئے ان کے دل میں اچانک تکلیف ہوئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں