شدت پسندوں کی دھمکیاں، شہباز بھٹی کیس تعطل کا شکار
اسلام آباد: شدت پسندوں کی دھمکیوں کے باعث سابق مقتول اقلتی وزیر شہباز بھٹی کے قتل کا مقدمہ تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔
عیسائی کیتھولک مذہب سے تعلق رکھنے والے شہباز بھٹی توہین رسالت کے قانون کے بہت بڑے مخالف تھے اور انہیں مارچ 2011 میں اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا تھا۔
ستانوے فیصد مسلمان آبادی کے حامل ملک پاکستان میں توہین رسالت ایک انتہائی حساس موضوع ہے جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے کے لیے موت کی سزا مقرر ہے۔
اقلیتوں کی تنظیم آل پاکستان مائناریٹیز الائنس کے ترجمان شمعون گل نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہمارے سب سے بڑے گواہ کے دفتر میں پنجابی طالبان کے دھمکی آمیز پمفلٹ ملے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان پمفلٹ میں گواہ کو اس معاملے سے الگ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے بصورت دیگر اسے اہلخانہ سمیت جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بہت خوفزدہ ہے اور مستقل اپنی جگہ تبدیل کر رہا ہے کیونکہ اس کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
گواہ کو 19 فروری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔
یہ مقدمہ سابق اقلیتی وزیر کے بھائی پال بھٹی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا جنہیں ان کے بھائی کے قتل کے بعد وفاقی اقلیتی وزیر کے عہدے پر بھی فائض کیا گیا تھا۔
شدت پسندوں کی جانب سے انہیں بھی قتل کی دھمکیاں ملی تھیں جس کے بعد وہ اٹلی چلے گئے۔
ان کے وکیل رانا عبدالحمید نے کہا کہ ان کی ملک میں عدم موجودگی مقدمے کی پیشرفت پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔
حمید نے کہا کہ انہیں بھی قتل کی دھمکیاں موصول ہو چکی ہیں لیکن وہ شدت پسندوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں اور اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔
حمید اس سے قبل رمشا مسیح کا مقدمہ بھی لڑ چکے ہیں جو گزشتہ سال الزامات سے بری ہونے کے بعد کینیڈا چلی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے آفس میں پمفلٹ پہنچائے گئے جس میں مجھے خبردار کیا گیا ہے کہ میں اس مقدمے سے علیحدہ ہو جاؤں۔
انہوں نے کہا ہے کہ تم نے رمشا کورہا کرایا، اب تم ہمارے ساتھی کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہو، تمہیں جلد سبق سکھائیں گے۔
حمید کے مطابق پال بھٹی بیرون ملک ہیں، وہ پاکستان نہیں آئیں گے، ہمارے گواہ کو دھمکیاں مل رہی ہیں، ہمیں مستقل دھمکیوں کا سامنا ہے، آپ اس مقدمے سے کیا توقع کر سکتے ہیں، میں مہیں آنے جانے سے قاصر ہوں۔
توہین رسالت کے اس قانون کو انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے جن کا کہنا ہے کہ اسے عام طور پر ذاتی دشمنی نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ ماہ دہری شہریت کے حامل ایک پاکستانی نژاد 69 سالہ برطانوی شخص کو اسی قانون کے تحت پھانسی کی سزا دی گئی۔
ء2011 میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کر دیا گیا تھا جنہوں نے اس قانون میں ترامیم کا مطالبہ کیا تھا۔
نومبر 2010 میں ایک کرسٹن خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے الزام میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی تھی جہاں ایک عورت نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ آسیہ نے حضور اکرم کی شان میں گستاخانہ کلمات ادا کیے تھے۔