کرزئی کے سیکورٹی معاہدے پر دستخط کی کوئی امید نہیں
واشنگٹن: امریکا کے انٹیلیجنس سربراہ جیمز کلیپر نے کہا ہے کہ وہ افغان صدر حامد کرزئی کے سیکورٹی معاہدے پر دستخط کرنے کے حوالے سے بالکل بھی پُر امید نہیں ہیں۔
سن 2014 کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کے قیام سے متعلق اس باہمی معاہدہ کو گزشتہ سال حتمی شکل دے دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ امریکا انخلا کے بعد بھی دس ہزار فوجی افغانستان میں رکھنے کا خواہش مند ہے تاکہ مقامی فورسز کی تربیت، القاعدہ جنگجوؤں اور ان کے ہمدردوں سے نمٹا جا سکے۔
اطلاعات کے مطابق، واشنگٹن کرزئی سے متعدد مرتبہ اس معاہدہ پر دستخط کی اپیل کر چکا ہے لیکن کلیپر کہتے ہیں کہ انہوں نے معاہدہ طے پا جانے کی امید ہی چھوڑ دی۔
کلیپر نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا 'آپ کو معلوم ہی ہے کہ اس معاہدے پر دونوں فریقین کے دستخط ضروری ہیں'۔
کمیٹی کے سربراہ سینیٹر کارل لیون نے کلیپر سے پوچھا کہ کیا امریکی حکومت کے لیے یہ بہتر ہو گا کہ وہ اپریل میں الیکشن کے بعد نئے افغان صدر کے آنے اور پھر اس ڈیل کو حتمی شکل دینے کا انتظار کریں؟
اس پر کلیپر نے جواب دیا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ ایک پالیسی فیصلہ ہو گا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے۔
کلیپر کا مزید کہنا ہے کہ سیکورٹی معاہدے پر دستخطوں میں تاخیر نے افغانوں کے درمیان عد اعتماد اور غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا۔
'اس تاخیر کے ناصرف معاشی بلکہ نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کی افغانستان میں بدستور موجودگی کے حوالے سے تشویش نے معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی نیچے آئی ہے۔
جب کلیپر سے افغان فورسز کی حالت زار کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے معیار تو ضرور بہتر ہوا لیکن بڑی تعداد میں اہلکاروں کا ملازمت چھوڑ جانا ایک اہم مسئلہ ہے۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ سال ایک لاکھ پچیاسی ہزار فوجیوں میں سے تیس ہزار ملازمت چھوڑ کر چلے گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لڑائی کے دوران افغان فورسز اکثر و بیشتر حکمت عملی کے حوالے سے طالبان باغیوں پر کامیابیاں حاصل کر لیتی ہیں لیکن وہ بہت دیر تک کسی خطے پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں ناکام رہتے ہی