انڈیا میں امریکی مصنفہ کی تازہ کتاب ضائع کردی جائے گی
دہلی: امریکی اسکالر وینڈی ڈونیگر نے کہا ہے کہ وہ اس بات پر ' غصے اور مایوسی ' میں ہیں کہ ہندومذہب پر شائع ان کی نئی کتاب کی تمام کاپیاں ایک قانونی کارروائی کے بعد ضائع کردی جائیں گی۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ کہ اس طرح سے اظہار کی آزادی کو دھچکا پہنچے گا۔
ان کے پبلشر پینگوئن نے پیر کو تمام کتابیں واپس لینے کا اعلان کیا ہے ۔ سال 2009 میں انہوں نے ' ہندو: متبادل تاریخ' یعنی دی ہندو این آلٹرنیٹو ہسٹری نامی کتاب لکھی تھی ۔ اس کتاب کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ایک سرگرم گروپ نے اسے مذہب کیخلاف قرار دے کر معاملہ عدالت میں داخل کردیا تھا۔
' میں واقعی یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر بہت غصے میں ہوں اور مایوس بھی ہوں کہ ( انڈیا میں) اس وقت اور مسلسل ابتری کی جانب جاتے ہوئے سیاسی حالات کے تناظر میں اظہار کی آزادی بہت مشکل ہوتی جارہی ہے،' انہوں نے اے ایف پی کو ایک ای میل میں کہا۔
ڈونیگر کی عمر اس وقت 74 برس ہے۔ ان کی نئی کتاب آنے کے بعد شکسا بچاؤ اندولن کمیٹی نے دہلی ہائی کورٹ میں کتاب کیخلاف درخواست دائر کرتے ہوئے یہ مؤقف ظاہر کیا ہے کہ اس کتاب میں غلط حقائق پیش کئے گئے ہیں اور ہندو دیومالا ( مائتھولوجی) کو بھی غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
دوسری جانب مصنفین اور آزادی رائے کے حامی حلقے نے پینگوئن پبلشنگ گروپ پر تنقید کی ہے کہ اس نے مقدمہ لڑنے کی بجائے دباؤ میں آکر کتابوں کو واپس لینے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے ایک اخبار میں کالم نگار پرتاب بھانو مہتا نے کہا ہے کہ کتاب کی اشاعت پر سمجھوتے کا مقصد ہے کہ اظہار کی آزادی پر سمجھوتہ کرلیا گیا ہے۔
انڈیا میں پینگوئن پبلشر نے کتاب پر پابندی کے حوالے سے کوئی بھی جواب دینے سے انکار کیا ہے۔