سندھ کے گاؤں میں لڑکیوں کے لیے جنسی تعلیم

اپ ڈیٹ 25 فروری 2014
یہ کراچی سے تقریباً تین سو پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر جوہی کے گاؤں پیر ماشیخ میں شاد آباد گرلز ایلیمنٹری اسکول کا ایک منظر ہے، جس میں اسکول کی ٹیچرز لڑکیوں کو ایک کارڈ کے ذریعے واضح کررہی ہیں کہ انہیں اس وقت جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے کس طرح بچنا چاہیٔے، جب وہ ڈاکٹر کے پاس طبّی معائنے کے لیے جائیں۔ —. فوٹو رائٹرز
یہ کراچی سے تقریباً تین سو پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر جوہی کے گاؤں پیر ماشیخ میں شاد آباد گرلز ایلیمنٹری اسکول کا ایک منظر ہے، جس میں اسکول کی ٹیچرز لڑکیوں کو ایک کارڈ کے ذریعے واضح کررہی ہیں کہ انہیں اس وقت جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے کس طرح بچنا چاہیٔے، جب وہ ڈاکٹر کے پاس طبّی معائنے کے لیے جائیں۔ —. فوٹو رائٹرز

جوہی: صاف ستھری قطاروں میں پاکستانی لڑکیاں سفید اسکارف پہنے، محتاط ہوکر اپنے ٹیچر کی باتیں سن رہی تھیں، جو انہیں ان کے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں وضاحت کررہی تھیں۔ جب ٹیچر نے پوچھا کہ اگر ایک اجنبی ان کے جسم کو چھوتا ہے تو وہ اس وقت کیا کریں گی، یہ سن کر کلا س کی سبھی لڑکیاں بھڑک اُٹھیں۔

ایک نے کہا کہ ’’اس وقت زور زور سے چلّانا چاہیٔے۔ ‘‘دوسری نے تجویز دی کہ ’’اس کو دانت کاٹ لینا چاہیٔے۔‘‘ تیسری نے کہا ’’اپنے ناخنوں سے اس کو بُری طرح نوچ لینا چاہیٔے۔‘‘

جنسی تعلیم مغربی اسکولوں میں عام ہے لیکن ان روایت شکن اسباق کو اب گہرے قدامت پرست پاکستان میں بھی جگہ مل رہی ہے، اس مسلم ملک کی آبادی اٹھارہ کروڑ لوگوں پر مشتمل ہے۔

پاکستان میں عوامی سطح پر جنس کے بارے میں بات کرنا ممنوع ہے اور یہاں تک کہ اس پر موت کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ والدین محض شادی پر رقص کرنے یا کھڑکی سے باہر دیکھنے جیسے معصومانہ جرائم پر اپنی بیٹیوں کے گلے کاٹ دیتے ہیں یا ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتے ہیں۔

پاکستان میں کسی بھی جگہ پر کسی قسم کی منظم جنسی تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔ کچھ علاقوں میں تو اس پر پابندی عائد ہے۔

لیکن غربت سے متاثرہ صوبہ سندھ کے ایک شہر جوہی کے گاؤں میں کام کرنے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ ان کی جنسی تعلیم کے منصوبے کو بہت سے گھرانوں کی حمایت حاصل ہے۔

ولیج شاد آباد تنظیم کی جانب سے چلائے جانے والے آٹھ اسکولوں میں سات سو لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

ان کی جنسی تعلیم کے اسباق آٹھ سال کی عمر سے شروع ہوتے ہیں، جب ان کے جسم میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں، اس وقت ان کو بتایا جاتا ہے کہ ان کے کیا حقوق ہیں اور انہیں اپنی حفاظت کس طرح کرنی چاہیٔے۔

اس تنظیم کے سربراہ اکبر لاشاری کہتے ہیں ’’ہم اپنی آنکھیں بند کرکے نہیں کر سکتے۔ یہ ایسا موضوع ہے، جس پر لوگ بات نہیں کرنا چاہتے، لیکن یہ ہماری زندگی کی حقیقت ہے۔‘‘

زندگی کے حقائق:

اکبر لاشاری نے کہا کہ گاؤں کی زیادہ تر لڑکیاں بلوغت کی زندگی میں یہ جانے بغیر داخل ہوجاتی ہیں، کہ ان کے ایّام شروع ہوجائیں گے یا ان کو جنسی عمل کے بارے میں سمجھائے بغیر ان کی شادی کردی جاتی ہے۔

یہ اسباق یہاں تک کہ لڑکیوں کو ازدواجی ریپ کے بارے میں تعلیم دینا، پاکستان میں ایک انقلابی خیال ہے، جہاں پر ایک شریکِ حیات کا جنسی عمل پر مجبور کیا جانا جرم نہیں ہے۔

اکبر لاشاری نے بتایا ’’ہم ان سے کہتے ہیں کہ اگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں تو اُن کے شوہر انہیں جنسی عمل کے لیے مجبور نہیں کرسکتے۔‘‘

انہوں نے کہا یہ اسباق لازمی اسباق کے علاوہ ہیں، اور ان کے بارے میں والدین سے ان کی بیٹیوں کے داخلے سے پہلے بات کرلی جاتی ہے۔ اس پر کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا اور اسکول کو کسی طرح کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔

ان آٹھ اسکولوں کو ایک آسٹریلین کمپنی بی ایچ پی بلیٹن کا تعاون حاصل ہے، جو قریبی گیس پلانٹ پر کام کرتی ہے، لیکن اکبر لاشاری کہتے ہیں کہ جنسی تعلیم گاؤں کے لوگوں کا اپنا خیال تھا۔

یہاں کی ایک ٹیچر سارہ بلوچ جن کی پیلی شلوار قمیض اسکول کے گرد آلود احاطے میں چمک رہی تھی، نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ لڑکیوں کی مدد کرنے سے وہ سمجھ جائیں گی کہ بڑے ہونے کا کیا مطلب ہے۔

انہوں نے کہا ’’جب لڑکیوں کے ایّام شروع ہوتے ہیں تو وہ خیال کرتی ہیں کہ یہ بہت شرمناک ہے اور وہ اپنے والدین سے بھی اس بارے میں بات نہیں کرتیں، اور سوچتی ہیں کہ وہ بیمار ہوگئی ہیں۔‘‘

سارہ بلوچ کچی اینٹوں سے بنے ہوئے تین کلاس رومز کے چھوٹے سے اسکول میں پڑھاتی ہیں۔ چوتھی جماعت کو کلاس روم سے باہر بیٹھنا پڑتا ہے، اس لیے کہ اس کلاس میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔

دو لڑکیوں کے لیے بنائی گئی سیٹ پر ٹھنس کر بیٹھی تین لڑکیاں سارہ بلوچ کو توجہ سے سن رہیں تھیں۔ ایک کارڈ پر دکھایا گیا تھا کہ ایک لڑکی ایک بوڑھے شخص کو اپنی ٹانگ چھونے سے روک رہی ہے۔

دوسرے کارڈ میں لڑکیوں سے کہا گیا تھا کہ اگر ان کاکوئی پیچھا کرتا ہے تو وہ اپنے اندر ہمت پیدا کرکے اپنے والدین یا دوستوں سے اس کے بارے میں بتائیں۔

یہ لڑکیاں شرمیلی ہیں لیکن یہ اسباق انہیں اچھی طرح یاد ہوگئے ہیں۔

’’میرا جسم صرف میرا ہے، اور اس پر صرف میرا حق ہے۔ اگر کوئی شخص میرے جسم کے پوشیدہ حصوں کو چھوتا ہے تو میں اس کو دانت کاٹ لوں گی یا اس کے منہ پر تھپڑ ماروں گی۔‘‘ دس سال کی عظمٰی پنہور نے یہ کہا اور یقیناً یہ کہتے ہوئے وہ شرما رہی تھی۔

ان اسباق میں شادی کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔

سولہ برس کی ساجدہ بلوچ نے سرجھکا کر کہا ’’ہماری ٹیچرز نے ہمیں سب کچھ بتا دیا ہے کہ جب ہماری شادی ہوگی تو ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ اب ہم یہ جان چکی ہیں کہ ہمیں کیاکرنا چاہیٔے اور کیا نہیں کرنا چاہیٔے۔‘‘

اس وقت سے آگے:

پاکستان کے اہم اسکولوں میں سے کچھ جن میں اعلٰی درجے کی شہرت رکھنے والے بیکن ہاؤس اسکول سسٹم بھی شامل ہیں، اس قسم کی جنسی تعلیم دینے پر غور کررہے ہیں، جس پر جوہی میں عمل کیا جارہاہے۔

بیکن ہاؤس کی ڈائریکٹر آف اسٹڈیز روحی حق کہتی ہیں ’’لڑکیاں جنس کے بارے میں اپنے والدین سے بات کرتے ہوئے شرماتی ہیں۔‘‘

یہ مطالبہ یقینی طور پر ہے۔ لاہور میں مقیم ارشد جاوید جنسی تعلیم پر تین کتابیں تحریر کرچکے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی کتابیں ہر سال سات ہزار کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ کوئی بھی اسکول یہ کتابیں نہیں خریدتا۔

لیکن ہر ایک ان اسباق سے اتفاق نہیں کرتا، کچھ حصوں سے اس لیے کہ نوجوان کے بارے میں بالغ ہونے سے پہلے جنسی تعلق کی توقع نہیں کی جاتی۔ حال ہی میں حکومت نے ایک نجی اسکول کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنے نصاب سے جنسی تعلیم کے تمام اسباق خارج کردے۔

آل پرائیویٹ اسکول فیڈریشن جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ملک بھر کے ایک لاکھ باون ہزار تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیم ہے، اس کے سربراہ مرزا کاشف علی کہتے ہیں کہ ’’یہ ہمارے مذہب اور آئین کے خلاف ہے۔ اس کی اسکول کی سطح پر اجازت نہیں ہونی چاہیٔے۔‘‘

صوبہ سندھ کے وزیرِ تعلیم نثار احمد کھوڑو کو جب جوہی میں جنسی تعلیم کے بارے میں بتایا گیا تو وہ یہ سن کر چونک گئے، انہوں نے کہا کہ ’’پڑوسی ملک ہندوستان میں بہت سے سرکاری اسکولوں میں باقاعدہ جنسی تعلیم دی جارہی ہے، لیکن پاکستان کے سرکاری اسکولوں کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’لڑکیوں کے لیے جنسی تعلیم؟ وہ یہ کس طرح کرسکتے ہیں؟ یہ ہمارے نصاب کا حصہ نہیں ہے، چاہے سرکاری نصاب ہویا نجی اسکولوں کا نصاب۔‘‘

لیکن طاہر اشرفی جو ایک اعتدال پسند مذہبی علماء کے اتحاد پاکستان علماء کونسل کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ اس طرح کے اسباق کی اسلامی قوانین کے تحت اجازت ہےجبکہ وہ مخلوط نہ ہوں اور تھیوری تک محدود ہوں۔

انہوں نے کہا ’’اگر اساتذہ خواتین ہیں، تو وہ شریعت کی حدود میں لڑکیوں کو اس طرح کی معلومات فراہم کرسکتی ہیں۔‘‘

تبصرے (5) بند ہیں

zaheer abbasi Feb 25, 2014 01:07pm
Excellent work
Najia Feb 26, 2014 02:39am
Good work
imran Feb 26, 2014 12:30pm
Excellent job, keep every school, specially interior
aisha chaudhary Feb 26, 2014 12:33pm
افسوس کہ یہ کام بہت دیر سے ہوا ہے ہمارے ہر اسکول ہر تعلیمی ادارے میں جنسی طور پر ہراساں کے جانے پر رد عمل اور ایکشن سب کی آوارنسس ضرور دینی جانی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ نشے جیسے لعنت کے بارے میں علم ہونا چاہیے کیوں کے میرے خیال میں جنسی طور پر ہراساں کے جانے والے بچوں کے مسلے کے بعد دوسرا اہم ترین مثلا نشہ ہے جو ایک وبا کی طرح ہمارے پورے معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے
یمین الاسلام زبیری Feb 27, 2014 10:24pm
جنسی تعلیم ضرور دی جائے لیکن اس کا نصاب بہت سوچ سمجھ کر طے کیا جائے. امریکہ کے اسکولوں میں جو جنسی تعلیم دی جاتی ہے مسلمان گھرانے ان کلاسوں مین اپنے بچے بھیجنا پسند نہیں کرتے.