لاہور: قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اسمگل شدہ اور غیر معیاری ادویات کا ایک گڑھ بن چکا ہے۔

ہر دوا کو کڑے ٹیسٹ سے گزار کر مارکیٹ میں متعارف کروایا جاتا ہے تاہم مقامی طور پر تیار کردہ اور اسمگل شدہ جنسی ادویات کسی قسم کے ٹرائل سے گزرے بغیر ہی فروخت کی جارہی ہیں۔

لاہور میں کام کرنے والے ہول سیل ڈیلر نے ڈان کو بتایا کہ یہ دوائیں فوڈ سپلیمنٹ، ڈراپس، اسپرے، شربت اور گولیوں کی شکل میں مارکیٹ میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں افغانستان کے ذریعے یہ ادویات پہنچائی جاتی ہیں جبکہ اس حوالے سے ہندوستانی اور چینی دوائیں عام دستیاب ہیں۔

ڈاکٹروں اور دوا بنانے کے ماہر افراد کا کہنا ہے کہ ان ادویات میں سے 70 فیصد غیر معیاری ہیں جبکہ انہوں نے خبردار کیا کہ ان دواؤں سے انسانی صحت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صحت کے مسائل کے علاوہ حکومت کی مداخلت سے سیکس ڈرگز کے کاروبار سے بھاری مقدار میں پیسے بنائے جاسکتے ہیں۔

فارماسسٹ نور محمد مہر جنہوں نے وکالت میں تربیت حاصل کر رکھی ہے، نے 2012-13 میں کی جانے والی ریسرچ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں جنسی ادویات سے متعلق 1.3 ارب ڈالر کا بزنس موجود ہے۔

یہ رپورٹ لاہور میں کام کررہی این جی او میڈی کیئر ہیلتھ فاؤنڈیشن نے مرتب کی تھی۔

مہر کا کہنا ہے کہ ملک میں 30 کے قریب برانڈز نے مارکیٹ پر 'قبضہ' جمایا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ہربل دوا بنانے والی تقریباً 30 ہزار غیر رجسٹرڈ کمپنیاں کام کررہی ہیں۔

پشاور اور کوئٹہ کو ان ادویات کی اسمگلنگ کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی، لاہور، سوات، چارسدہ اور دیگر مقامات پر جنسی صلاحیت بڑھانے والی غیر معیاری ادویات تیار کی جاتی ہیں۔

2005ء میں ایک ملٹی نیشنل فارماسوٹیکل کمپنی نے سیکس ادویات فروخت کرنے کے لیے منظوری حاصل کرنے کی کوشش کی اہم اس اسکیم کو وفاقی حکومت نے مذہبی حلقوں کی جانب سے مذمت پر موخر کردیا تھا جو اس کاروبار کو غیر اسلامی تصور کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت بھی آٹھ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس حوالے سے حکومتی منظوری کا انتظار کررہی ہیں۔

شیخ زائد ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر اکرام غوری کے مطابق جنسی صلاحیت بڑھانے والی ادویات کے بے جا استعمال سے گردوں کی خرابی اور دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مستند ڈاکٹر بغیر تحقیقات کے ایسی ادویات کے استعمال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔

غوری نے اعتراف کیا کہ مارکیٹ میں موجود زیادہ تر ادویات صحت کے لیے خطرناک ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گردوں کی ناکامی کے 100 معاملات میں سے پانچ کی وجہ یہ ادویات ہوتی ہیں جو کہ پاکستان میں ہربل ادویات کے نام سے فروخت ہورہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں