پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کا ٹیکس جی ڈی پی شرح اصلی والا 'شرمناک' ہے، حال ہی میں FBR اور حکومت کی کوشش رہی ہے کہ اس شرح کو بڑھایا جائے.

اسی ضمن میں گزشتہ ایک دو سالوں سے مختلف خبریں نظر سے گزرتی تھیں کہ ہمارے عوامی نمائندے قومی خزانے کی کتنی 'خدمت' کرتے ہیں. مسلم لیگ ن کی حکومت کا اعلان شدہ ایجنڈا معاشی ہے اور انکی معاشی ٹیم کو یہ بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی بھی ملک کا خزانہ بھرنے میں اس شرح کا کتنا ہاتھ ہوتا ہے.

حال ہی میں پاکستان دنیا کا کے ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جہاں پارلیمنٹیرین کی ٹیکس تفصیلات عوام کے لئے شائع کر دی جاتی ہیں. یہ اعلان وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب نے گزشتہ مہینے کیا تھا کہ پہلے مرحلے میں تمام پارلیمنٹیرین حضرات کو NTN نمبر جاری کر دیے جائیں گے اور ٹیکس ڈائرکٹری بھی جاری کر دی جائے گی.

اگر تمام ٹیکس دہندگان کی تفصیلات حکومت کی جانب سے شائع کر دی گئیں جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ 31 مارچ تک کر دیا جائے گا تو پاکستان ناروے، فن لینڈ اور سویڈن کے بعد دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا جہاں اس طرح سے ڈائرکٹری سالانہ بنیادوں پر جاری کی جاتی ہے.

مسلم لیگ ن کی حکومت اور وزیر خزانہ صاحب اس کام کی بنا پر تحسین کے حقدار ہیں. ن لیگ کے سینے پر ایک تمغہ اور بھی سجا ہوا ہے کہ انہی کے ایک ممبر قومی اسمبلی جناب طاہر بشیر چیمہ صاحب 1174 عوامی نمائندوں میں سے سب سے کم ٹیکس ادا کرنے والے پارلیمنٹیرین ہیں. موصوف نے سال 2013 کی مد میں مبلغ 50 روپے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں.

دوسری طرف وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار یوسف، مخدوم جاوید ہاشمی، مراد سعید سینیٹ سے گل محمّد لاٹ اور سردار یعقوب ناصر اور ایم کیو ایم کے جناب طاہر مشہدی سمیت 100 ایسے ممبران ہیں جنھیں ٹیکس جمع کروانے کی فرصت نہیں ملی. بڑے لیڈرز میں سے مولانا فضل الرحمن صاحب نے صرف 13462 روپے سے قومی خزانے کی خدمت کی ہے، سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ صاحب نے بھی تینتیس ہزار سات سو چوبیس روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیۓ ہیں. تقریباً 20 کے قریب ممبران پارلیمنٹ ایسے ہیں جنکا ٹیکس دس ہزار روپے سے بھی کم ہے.

وفاقی وزیر جناب احسن اقبال گیارہ ہزار چوراسی روپے اور وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب نے صرف 20959 روپے ٹیکس کی مد میں جمع کروائے ہیں. سینیٹ کے لیڈر آف ہاؤس جناب راجہ ظفرالحق صاحب صرف 18725 روپے ہی ٹیکس دینے کی سکت رکھتے ہیں. یقین مانئے ممبران پارلیمنٹ کی 'غربت' کا عالم دیکھ کر پاکستان کی پارلیمنٹ اصل میں غریبوں کی نمائندہ لگتی ہے.

جناب عمران خان صاحب نے صرف ایک لاکھ چورانوے سے کچھ اوپر ہی ٹیکس جمع کروایا اور اثاثہ جات کی مد میں 'انڈہ' دیا ہے. بنی گالا والے محل کے مکین شائد کوئی چھوٹی موٹی گاڑی بھی نہیں رکھتے اسی لئے دوسروں کی لینڈ کروزر اور پرائیویٹ جیٹ پر سفر کرتے ہیں.

میاں نواز شریف صاحب نے اگرچہ چھبیس لاکھ سے زائد ٹیکس جمع کروایا ہے لیکن اثاثہ جات میاں صاحب بھی نہیں رکھتے. میاں شہباز شریف وہ واحد وزیر اعلی ہیں جنہوں نے چھتیس لاکھ سے زائد ٹیکس قومی خزانے میں جمع کروایا ہے، انکے صاحبزادے نے بھی تقریباً 43 لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کیا ہے.

ہمارے پارلیمنٹیرینز کی ایک بہت بڑی اکثریت زیورات، شیئرز، بنک بیلنس اور گاڑی کا 'مذاق' نہیں رکھتے.

دوسری جانب اگر اسحاق ڈارصاحب نے خود ٹیکس اور انکم سپورٹ لیوی کی مد میں پینتیس لاکھ سے زائد جمع کروائے تو سندھ اسمبلی کے ممبر سید اویس قادر شاہ صاحب ایک کروڑ ستاسی لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کر کے پاکستان کے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے عوامی نمائندے ہیں. انکے ساتھ سینیٹرعبّاس آفریدی، سینیٹر طلحہ محمود، نور سلیم ملک (ممبر خیبر پختونخوا اسمبلی)، پنجاب اسمبلی سے شیخ علاالدین ان چند ممبران میں سے ہیں جنہوں نے ایک کروڑ سے زائد رقم قومی خزانے میں جمع کروائی ہے.

بلوچستان کے وزیراعلی ڈاکٹرعبدالمالک کو بھی شائد فرصت نہیں ملی کہ وہ قومی خزانے کی کوئی خدمات کر سکیں. بلوچستان اسمبلی کے سوائے ایک رکن کے (پرنس احمد علی) تمام 60ممبران دس لاکھ سے کم مالیت کے اثاثہ جات کے مالک ہیں.

تمام باتیں ایک طرف حکومت کی جانب سے جو یہ ٹیکس ڈائرکٹری جاری کرنے کا اقدام کیا گیا ہے اس سے مستقبل میں عوام کے شعور پر بھی اثر پڑنا چاہئے اور جسکا اظہار بیلٹ باکس میں ووٹ ڈالنے کے وقت متوقع ہو تو کیا ہی بات ہے.

اس سال نہیں تو اگلے سال سہی مگر آہستہ آہستہ عوامی نمائندوں کی جانب سے بھی اپنے اصل اثاثہ جات اور صحیح ٹیکس دینے کا رواج بھی پڑنے کی امید ہے. دوسری طرف اگر تو ڈار صاحب اپنے کہے کے مطابق مارچ کے آخر تک تمام ٹیکس دہندگان کی فہرست جاری کرنے میں کامیاب ہو گئے تو نہ جانے کن کن پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں گے اور کون کون سے بت گھٹنے ٹیکیں گے.

مذکورہ ڈائرکٹری FBR کی ویب سائٹ سے حاصل کی جا سکتی ہے

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں